تحریر:قاسم سید
کیا گیان واپی کا معاملہ بابری مسجد پارٹ ٹو کی طرف جارہا ہے ۔کیا کاشی مقدمہ کے جج موصوف کچھ زیادہ جلدی میں نہیں ہیں؟کیا عدلیہ کسی دباؤ میں ہے؟کیا میڈیا نے جو ہائپ پیدا کیا ہے اس سے ملک کو 92’میں دھکیلنے کی کوشش تو نہیں ہے؟کیا ہم اسے ہندوسنسکرتی کے احیاء کی جارحانہ مہم کی بجائے بے روزگاری،مہنگائی جیسے ایشو سے توجہ ہٹانے اور سوالوں سے سرکار کے راہ فرار کا بیانیہ سمجھیں ؟سب سے اہم سوال کیا صبر کرنے، گھروں میں بیٹھنے اور دعا کرنے کی تلقین کے سوا اور کوئی راستہ ہے یا نہیں یا ابھی وہ وقت نہیں آیا؟ ۔کوئی لکشمن ریکھا تو ہوگی! مزید یہ کہ ہر حالت میں عدالت کا ہرفیصلہ چوں چراں تسلیم کرنے کی بات کہہ کر انصاف کا ترازو فریق مخالف کے ہاتھوں میں تو نہیں تھمادیا؟
ایسے بہت سے سوال اس لیے پیدا ہورہے ہیں کیونکہ گیان واپی مسجد میں ویڈیو گرافی سروے کے دوران مبینہ طور شیو لنگ ملنےکے ہندو فریق کے محض دعویٰ کے بعد متعلقہ جج موصوف نے دوسرے فریق کو سنے بغیر اس مقام کو سیل کرنےاور کسی کو وہاں تک ہرگز نہ جانے کا فرمان جاری کردیا، یہی نہیں ایک قدم آگےبڑھ کر یہ وارننگ دی کہ سیل شدہ مقام (وضو خانہ) کی حفاظت کی ذمہ داری ضلع انتظامیہ،پولیس کمشنر،اور سی آرپی ایف کمانڈنٹ کی ہوگی جبکہ یہ بات ریکارڈ میں رہے کہ ڈی ایم نے شیو لنگ ملنے کی ایسی کسی بھی بات سے انکار کرکے میڈیا اور ہندو فریق کے دعوے کی ہوا نکال دی ہے جو لگاتار پروپیگنڈہ کرکے فضا میں فرقہ وارانہ زہر گھول رہے ہیں ۔اور یہ مشورہ دیا جارہا ہے کہ اب چونکہ شیو لنگ ا ور دیگر آثار مل گئے ہیں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مسجد حوالہ کردیں ان کا دعویٰ اورقبضہ غیر قانونی ہے ہوسکتا ہے کہ امن و بھائی چارے کی فضا برقرار رکھنے کی خاطر ایسی آوازیں ہمارے درمیان سے اٹھنے لگیں کہ مسجدہندوؤں کو سونپ دی جائے۔
بہرکیف حالات اچھے نہیں ہیں ٹوٹے حوصلو ں کے پر نوچنے اور بازو مروڑنے بلکہ اکھاڑ دینے کی بات ہورہی ہے ۔ یہ قانونی ماہرین بتائیں گے کہ گیان واپی پر جو کچھ تماشہ ہورہا ہے کہ عبادت گاہوں سے متعلق 1992ایکٹ اس کی اجازت دیتا ہے اور کیا بابری مسجد پرسپریم کورٹ کی رولنگ کی مقامی عدالت توہین تو نہیں کررہی ہے ۔
ہمیں یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ جب سروے رازدارانہ تھا ،اس کی رپورٹ 17مئی کو عدالت میں پیش ہونی ہے تو جو کچھ ‘’افشا‘کیا گیا وہ سوجی سمجھی سازش کاحصہ ہے؟،کیا یہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں؟ ہندو فریق نے یہ ڈھٹائی او ر جسارت کیوں کی،کیا اسے سزا ملے گی؟دوسرے عدالت نے اس دعوے پر جس کی صداقت کو ابھی جانچنا ہے اتنی تیزی ،پھرتی اور مستعدی و بے صبری کا مظاہرہ کیوں کیا؟ اس کے پاس تو سروے رپورٹ آئی ہی نہیں اسے جانبدار انہ رویہ نہ کہیں اور کیا اسے عدلیہ پر نادیدہ دباؤ نہ مانا جائے۔
بابری مسجد معاملہ کے جج نے بھی ایسی تیزی دکھائی تھی تالہ کھلنے کے ساتھ درشن کی اجازت دے دی تھی ۔ہم یہ مانیں کہ تاریخ خود کو دہرانے جارہی ہے!آخری سوال اپنے مقتدر محترم رہنماؤں سے کیا ہم ابھی گھر بیٹھنے،صبر اور دعا کرنے کے سہ نکاتی تدبیر کے مرحلہ میں ہیں یا اس سے آگے بڑھنے کا وقت آگیا ہے ۔کیا مسلم نوجوانوں میں بے چینی و اضطراب کی طوفانی موجوں کو درست قبلہ دینے اور تھامنے کی ضر رت ہے یا نہیں عدالتی لڑائی کا انجام معلوم ہے اور جب فریق نے پانی گدلا کرنے کا الزام لگاکرسزاسنانے کافیصلہ کر ہی لیا ہے، دلیلیں کہاں کام آئیں گی۔
خود سپردگی یا جمہوری و قانونی مزاحمت اللہ جانے کیا ہوگا آگے ۔