تجزیہ:جیریمی بوؤن
حماس کی جانب سے جنگ بندی کی شرائط قبول کرنے کے اعلان نے بیشتر مبصرین کو حیران کر دیا ہے اور اگلے چند ہفتوں میں کیا کچھ ہو سکتا ہے، اس کے بارے میں اسرائیل کی توقعات کو دھچکا پہنچایا ہے۔
اسرائیل میں عام خیال یہ تھا کہ حماس جنگ بندی کی شرائط کو قبول نہیں کرے گا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ابتدائی طور پر اسرائیل نے فلسطینیوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ اسرائیلی فوجی آپریشن کے پیش نظر رفح کے مشرقی حصے سے نقل مکانی کر جائیں۔
امریکہ رفح میں کسی بھی ایسی اسرائیلی زمینی کارروائی یا فوجی آپریشن کی مخالفت کرتا ہے جس سے عام فلسطینیوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو۔ تاہم امریکی خدشات کے باوجود اسرائیلی وزیر دفاع نے حال ہی میں اپنے امریکی ہم منصب پر واضح کیا تھا کہ رفح میں زمینی کارروائی کے علاوہ اُن کے پاس کوئی آپشن موجود نہیں ہے کیونکہ حماس نے عارضی جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی جیسی ہر تجویز کو ماضی میں مسترد کیا ہے۔
تاہم اس دوران امریکا، مصر اور قطر کے ثالث فریقین پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالتے آئے ہیں۔ سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنز نے اپنے گذشتہ دن کا بیشتر حصہ قطر کے وزیراعظم سے ملاقاتوں کے سلسلے میں دوحہ میں گزارا، دوحہ حماس کی سیاسی قیادت کا مرکز بھی ہے۔
اور ان کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پیر کی شام حماس نے جنگ بندی کو قبول کرنے کا اعلان کیا جبکہ فلسطینی ذرائع نے اشارہ دیا ہے کہ حماس طویل مدتی جنگ بندی کے لیے بھی تیار ہو سکتا ہے۔
حماس کے اس اعلان کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کا پہلا عوامی ردعمل یہ تھا کہ حماس ’(جنگ بندی کے لیے) اسرائیل کے مطالبات کو پورا کرنے سے کوسوں دور ہے۔‘ تاہم اس بیان کے باوجود ان کی جانب سے اس معاملے پر بات چیت کے لیے ایک وفد روانہ کیا گیا ہے۔
وزیراعظم نتن یاہو کی سیاسی مجبوریاں بھی ہیں۔ اسرائیلی میں اُن کی مخلوط حکومت کے قائم رہنے کا انحصار انتہائی قوم پرست یہودیوں کی حمایت پر ہے۔ اور نتن یاہو کے حامی قوم پرست گروہوں نے رفح پر مکمل قبضے کا مطالبہ کیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر ایسا نہیں ہوا تو وہ حکومت کو گرا دیں گے۔ جبکہ دوسری جانب جنگ بندی کا مطلب یہ ہو گا کہ اسرائیل کی جانب سے رفح پر حملہ نہیں کیا جائے گا۔
اس کے ساتھ ہی اسرائیلی یرغمالیوں کے اہلخانہ اور حامیوں نے ملک میں تازہ مظاہرے کیے ہیں، انھوں نے سڑکیں بلاک کیں اور مطالبہ کیا کہ اسرائیلی حکومت جلد از جلد جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کرے تاکہ ان کے پیارے جلد گھروں کو لوٹ سکیں۔
امریکی بھی چاہتا ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ ہو جائے۔صدر جو بائیڈن کو اسرائیل کے لیے اپنی حمایت، اس کے باوجود کے اسرائیل نے غزہ میں بڑی تعداد میں فلسطینی شہریوں کو ہلاک کیا ہے، مہنگی پڑ رہی ہے اور امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے اس سال میں انھیں اس حمایت کی سیاسی قیمت بھی ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
حماس نے نتن یاہو کو مسلسل دباؤ میں رکھا ہوا ہے۔ اگر صدر بائیڈن انھیں جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کرتے ہیں تو انھیں اپنی مخلوط حکومت کی بقا اور 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد امریکی صدر کی جانب سے دی جانے والی اہم حمایت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔
جنگ بندی کا مطلب یہ بھی ہو گا کہ اسرائیل نے ’مکمل فتح‘ حاصل نہیں کی، وہ مکمل فتح جس کا وعدہ وزیر اعظم نتن یاہو نے اپنی عوام سے کیا تھا۔آگے کیا ہو گا: شاید مزید گفت و شنید اور چند مشکل فیصلے۔