نئی دہلی: ( ایجنسی)
3 اپریل کو دہلی کے براڑی میں ہندو مہاپنچایت کے حوالے سے پولیس نے اب تک کل چار ایف آئی آر درج کی ہیں۔ اس کا اہتمام بنیادی طور پر سیوا انڈیا فاؤنڈیشن اور کئی دیگر ہندو تنظیموں نے کیا تھا۔نیوز پورٹل نیوز کلک کی رپورٹ کے مطابق دہلی میں پولیس کی اجازت کے بغیر اس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس مہاپنچایت میں کھلم کھلا مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا گیا۔ یہی نہیں اس دوران کئی صحافیوں سے مارپیٹ کے الزامات بھی لگے۔
تاہم اس میں دہلی پولیس کا کردار بھی سوالیہ نشان تھا۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے اسٹیج پر بغیر اجازت کے کئی گھنٹے پروگرام کیسے چلتا رہا؟ دوسرا، نفرت انگیز تقاریر کے کتنے پرانے ملزم یہاں آئے اور ایک بار پھر مذہبی جنون کی بات کی اور وہ آسانی سے کیسے چلے گئے؟ واقعہ کے دو دن گزرنے کے باوجود صرف ایف آئی آر درج ہوئی، ابھی تک کوئی ملزم گرفتار کیوں نہیں ہوا؟ ایسے کئی سوال پولیس انتظامیہ پر اٹھ رہے ہیں۔ اب تک کیا ایکشن لیا گیا ہے ۔
ہندو مہاپنچایت معاملے میں اب تک کل 4 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ اس میں پہلی ایف آئی آر منتظمین اور ان کی اشتعال انگیز تقاریر کے خلاف درج کی گئی ہے۔ دوسری ایف آئی آر نیوز لانڈری کی خاتون صحافی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور حملہ سے متعلق ہے۔ تیسری ایف آئی آر ایک آزاد صحافی پر حملے سے متعلق ہے اور چوتھی ایف آئی آر مختلف ٹوئٹر ہینڈلز کے ذریعے اشتعال انگیز پوسٹ کرنے سے متعلق ہے۔
دریں اثنا، خبر رساں ایجنسی بھاشا کے مطابق، پیر کی شام کو آخری چوتھی ایف آئی آر کے بارے میں، دہلی پولیس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ متنازع ’ہندو مہاپنچایت‘ پروگرام کے دوران صحافیوں پر حملہ کیے جانے کے دعوے کے بعد، فرقوں کے درمیان مبینہ طور پر خلیج پیداکرنے اورنفرت پھیلانے کے الزام میں ایک صحافی اور نیوز پورٹل کے ٹوئٹر ہینڈل کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ حکام نے یہ جانکاری دی۔ انہوں نے کہا کہ ٹویٹ میں اشارہ دیا گیا کہ صحافیوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا اور اس سے ماحول خراب ہو سکتا ہے۔