تحریر:وندیتا مشرا
اسٹاف سلیکشن کمیٹی یعنی ایس ایس سی کی کانسٹیبل جنرل ڈیوٹی (SSCGD) بھرتیاں 2018 میں آئی تھیں۔ 60 ہزار سے زائد آسامیوں کے لیے ہونے والی ان بھرتیوں میں امتحان کے تمام مراحل یعنی تحریری امتحان، فزیکل فٹنس اور میڈیکل ٹیسٹ دو سال قبل مکمل ہو چکے ہیں۔ لیکن حکومت نے ابھی تک جوائننگ لیٹر نہیں بھیجا۔
یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ بھرتیاں براہ راست مرکز کی کرسی پر بیٹھی مودی حکومت کے ماتحت ہیں۔ اور یہ بھی کہ ہندوستان کے وزیر اعظم کو اس تاخیر کا علم نہ ہو، یہ ممکن نہیں ہے۔ میں وزیر اعظم سے یہ سوال پوچھ رہی ہوں کہ مرکزی حکومت نے ان طلباء کو جوائننگ لیٹر کیوں نہیں دیا؟
ہندوستان جیسی بڑی جمہوریت میں عام لوگ اپنے وزیر اعظم سے کیسے سوال کر سکتے ہیں؟ وزیراعظم تک اپنی بات کیسے پہنچائیں؟ اس کا جواب آزادی سے پہلے کانگریس کی طرف سے شروع کی گئی تحریک آزادی میں مضمر ہے۔
‘نمک ستیہ گرہ
تحریک آزادی نے آنے والے ہندوستان کی بنیاد میں عدم تشدد پر مبنی مزاحمت اور ستیہ گرہ جیسے مضبوط نظریات کو قائم کیا تھا۔ ایسی ہی ایک مزاحمت جسے ’نمک ستیہ گرہ‘ کا نام دیا گیا، بابائے قوم مہاتما گاندھی نے انگریزوں کے خلاف اس وقت کیا تھا جب وہ محسوس کرتے تھے کہ انگریزوں کی طرف سے لگائے جانے والے نمک پر ٹیکس اور اجارہ داری غیر فطری اور غیر اخلاقی ہے۔ مارچ 1930 میں، گاندھی جی نے مشہور ڈانڈی مارچ میں 240 کلومیٹر کی پیدل یاترا کی۔ شاید اسی بات سے تحریک لے کر ایس ایس سی جی ڈی 2018 کے کامیاب طلباء جنہیں حکومت جوائننگ لیٹر نہیں دے رہی ہے، انہوں نے ناگپور سے جنتر منتر، دہلی تک ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ کی پیدل یاترا شروع کردی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آپ سب روز اخبار پڑھتے ہیں، ٹی وی دیکھتے ہیں، لیکن کیا آپ نے کبھی ان طلبہ کی پیدل یاترا پر کوئی کوریج دیکھی؟
ہزاروں کی تعداد میں چھپنے والے اخبارات نے کبھی صفحہ اول پر اس خبر کو ترجیح نہیں دی اور نہ ہی کسی نیوز چینل نے پرائم ٹائم پر اس پر کوئی بحث کا اہتمام کیا۔ یہاں تک کہ ڈیجیٹل میڈیا، جو مین اسٹریم میڈیا کی مزاحمت کے لیے کھڑا ہوا، شاذ و نادر ہی اس مسئلے پر بحث کرتا نظر آئے گا!
آخر ان طلباء کو اس شدید گرمی میں ایک ہزار کلومیٹر کا سفر کیوں کرنا پڑرہا ہے جب کہ یہ نوکری ان کا حق ہے۔ وہ اس امتحان کے تمام مراحل کامیابی سے پاس کر چکے ہیں، پھر بھی انہیں اپنی ہی منتخب حکومت میں اس قدر پریشانی کا سامنا کیوں ہے؟
حکومت تاخیر پر معذرت خواہی کرے اور جوائننگ لیٹر فوری طور پر ان طلباء کے حوالے کرے۔
لیکن حکومت کو یقین ہے کہ ان طلبہ کے مسئلے پر نہ تو کوئی بڑا (ہندی) اخبار کچھ شائع کرے گا اور نہ ہی کوئی ’بڑا‘ اینکر اس پر کوئی پروگرام کرے گا۔ اس بات کا پورا امکان ہے کہ یہ طلباء دہلی تک کا سفر کرنے کے بعد مایوس ہو جائیں۔ اس کی وجہ یہ طلبہ نہیں ہیں۔ نہ ہی ان کی تحریک، جذبے اور انداز میں کوئی نقص ہے۔ مسئلے کی جڑ ’میڈیا‘ ہے جو موجودہ حکومت کے پروپیگنڈے کا ذریعہ بن چکا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ ایس ایس سی جی ڈی کے طلباء کو اب پتہ چل رہا ہو لیکن انہیں تھوڑا پیچھے دیکھنا چاہئے۔ پچھلے 8 سالوں میں بڑے ہندی نیوز چینلز میں شاید ہی کوئی ایسا پروگرام ہوا ہو، جس سے یہ ظاہر ہو کہ عوام کا ایک بڑا طبقہ حکومت سے ناراض ہے۔ ناراضگی کے پروگراموں کو تو چھوڑیں، ایسا پروگرام دیکھنا مشکل ہوجائے گا جس میں لوگ حکومت سے کچھ مانگ رہے ہوں۔ اس کے برعکس حکومت سے سوال پوچھنے والوں کے خلاف، حکومت کے زیر اہتمام کچھ مانگنے والوں کے خلاف، کسی قانون کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف لاکھوں پروگرام منعقد کیے گئے۔ حکومت نے اس پروپیگنڈے کے نظام کو اپنی صلاحیت سمجھ لیا اور بغیر سوچے سمجھے ایک ایک کرکے فیصلے لیے گئے۔
نوٹ بندی کا فیصلہ
اگر ہم منظم طریقے سے سمجھیں تو یہ صاف نظر آئے گا کہ موجودہ حکومت نے من مانی طور پر نوٹ بندی نافذ کی لیکن میڈیا نے کوئی سوال نہیں اٹھایا، بلکہ کچھ بڑے ہندی نیوز چینلوں کے صحافیوں نے نوٹ بندی کے دوران 2000 کے نئے نوٹوں میں چپ کی موجودگی کا دعویٰ کیا۔ جو بالآخر غلط ثابت ہوا۔ لیکن انہوں نے کبھی عوامی سطح پر معافی نہیں مانگی۔
بینکوں کی قطاروں میں سینکڑوں ہندوستانی مر گئے لیکن وزیر اعظم نریندر مودی سے سوال کرنے والا کوئی پروگرام کبھی منعقد نہیں ہوا۔
نوٹ بندی کے اثرات اور حکومت کے دعوؤں کی ناکامی کے باوجود یہ مین اسٹریم میڈیا بے شرمی کے ساتھ حکومت کی تعریفکرتا رہا اور حکومت کی پروپیگنڈہ ایجنسی بنا رہا۔ جی ایس ٹی پر بحث 1999 میں شروع ہوچکی تھی۔ مسئلہ رضامندی اور اس کے صحیح نفاذ کا تھا۔ اٹل حکومت بھی اسے نافذ کرنا چاہتی تھی اور اس کے بعد آنے والی منموہن سنگھ حکومت بھی۔ لیکن اس کے نفاذ میں درپیش مشکلات کی وجہ سے اسے ملتوی کر دیا گیا۔
جی ایس ٹی جلد بازی میں لاگو کیا گیا
لیکن نریندر مودی حکومت نے 1 جولائی 2017 کو عجلت میں اسے نافذ کیا، جس کے نتیجے میں لاکھوں مائیکرو، میڈیم اور چھوٹے پیمانے کی صنعتیں تباہ ہوگئیں۔ ہزاروں فیکٹریوں کو راتوں رات تالے لگ گئے۔ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے لگی لیکن مین اسٹریم میڈیا حکومتی عقیدت میں مصروف رہا۔
ملک کے لوگ غریب اور بے روزگار ہوتے جا رہے تھے لیکن میڈیا کے دفتر جو حکومت کا کام کرتے تھے چمک رہے تھے۔ گرتی ہوئی معیشت کے درمیان چند حکومت نواز صنعت کار اربوں کما رہے تھے اور ملک کے شہری ان صنعت کاروں کے چلائے جانے والے نیوز چینلز پر آپس میں لڑ رہے تھے۔ ایک طرف ہر روز بدلتے ہوئے مہنگے فون اور مہنگی گھڑیوں نے صحافت کو یرغمال بنا رکھا ہے اور دوسری طرف ان صحافیوں اور ٹی وی چینلوں نے ہندوستان کے شہری شعور اور ہم آہنگی کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس مسلسل بگڑتی ہوئی ہم آہنگی کے درمیان، کووڈ کی وبا نے دستک دی۔
کورونا کی وباء کی دستک
حکومت کی لاپروائی اور مدھیہ پردیش میں حکومت سازی کے عمل میں سوئی ہوئی مرکزی حکومت کو پتہ ہی نہیں چلا کہ ملک کو کب کورونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے جلد بازی میں پورے ملک کو ایک ہی جھٹکے میں بند کر دیا۔ لاکھوں لوگ اندرون ملک ہجرت کرنے لگے۔ لیکن صنعت کاروں کے ایندھن پر چلنے والے میڈیا کے یہ دیگ صرف سرکاری کھچڑی پکاتے رہے۔ غلط حکومتی اقدامات کی مسلسل تعریف نے مرکز کی مودی سرکار کو اس قدر بے حس کر دیا کہ جب کورونا کی دوسری لہر لاکھوں ہندوستانیوں کو گنگا کے کنارے نیندیں اڑا رہی تھی، اس وقت ملک کے وزیر اعظم بنگال کے انتخابات میں جلسے کر رہے تھے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنی تباہی کے بعد بھی عوام کی منتخب جمہوری حکومت کے پاس اتنی ہمت کہاں سے آئی کہ وہ اتنی بے حس ہو گئی۔ شاید وہ جانتے تھے کہ حکومت کی پالیسیوں کی وضاحت اور تنقید کرنے والا میڈیا کئی سالوں سے مر چکا ہے۔ وہ میڈیا کورونا سے پہلے ہی نالے کے کنارے مر چکا ہے۔ اب حکومت کے لیے سب کچھ آسان ہے جس نے معلومات کی ترسیل پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا ہے۔
حکومت سمجھ چکی ہے کہ چاہے کوئی بھی قانون لائے، اپوزیشن کی جائیداد ضبط کرلے اور جس بھی احتجاجی کو پکڑے اور جیلوں میں ڈالے، سچ کبھی عوام تک نہیں پہنچے گا۔
نیوز اینکرز خود حکومتی پارٹی بن کر مباحثے کا پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ ایسے میں بھارت جو کہ اسپانسرڈ میڈیا کا گڑھ بن چکا ہے، حکومت کے خلاف کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ایک کامیاب عوامی تحریک کی بنیادی شرط ایک متحرک اور منصفانہ میڈیا ہے، جو ہندوستان میں معدوم ہونے والی نسلوں کی زد میں آچکی ہے۔ ایسی حالت میں جب تحریک کی پہلی شرط کو پورا کرنا ناممکن ہو تو تحریک کی دوسری شرط ہی کام کر سکتی ہے جو کہ بڑی تعداد کی قوت ہے۔
طلبہ کی تحریکوں میں ایک بڑی قوت کو اکٹھا کرنا تقریباً ناممکن ہے اور اگر یہ تحریک مسابقتی طلبہ کی ہے تو اس کے امکانات بہت کم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت نہ تو 2015 میں یو پی ایس سی کے طلباء کو انصاف دے سکی اور نہ ہی کورونا کے دور میں تباہ شدہ پڑھائی کے بعد۔ جبکہ ڈی او پی ٹی کی ڈپارٹمنٹل اسٹینڈنگ کمیٹی نے مارچ 2022 میں یو پی ایس سی کے امیدواروں کو کورونا وبائی امراض کی وجہ سے ضائع ہونے والے مواقع کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک اضافی موقع دینے کی سفارش کی تھی۔ لیکن لامحدود اکثریت اور مواصلات کے ذرائع پر تقریباً مکمل کنٹرول والی حکومت کے لیے پارلیمانی حدود شاید ہی کوئی اہمیت رکھتی ہوں۔
اگر اہمیت ہوتی تو صرف ان کے اصرار کی وجہ سے تین زرعی قوانین پارلیمنٹ سے بغیر کسی بحث کے منظور نہ ہوتے۔ جس کی زد میں آکر 800 سے زائد کسانوں نے اپنی جانیں دیں اور لاکھوں کسانوں کو 12 ماہ تک سڑک پر بیٹھ کر نقصان اٹھانا پڑے گا۔
‘#اگنی پتھ اسکیم
ایس ایس سی جی ڈی کے علاوہ، اس وقت جاری طلبہ کی تحریک نے بھیانک شکل اختیار کر لی ہے۔ یہ تحریک فوجی شعبے کے لیے حکومت کی طرف سے لائی گئی ’اگنی پتھ‘ اسکیم کے بارے میں ہے۔ اس اسکیم میں 75 فیصد منتخب طلباء کو صرف چار سال کے لیے آرمی سروس میں رکھنے کی تجویز ہے۔ بغیر کسی کمیٹی کی سفارش کے ایک ہی جھٹکے میں لائی گئی یہ اسکیم ان لاکھوں طلبہ کے لیے صدمہ ہے جو برسوں سے نوکری کی تیاری کر رہے ہیں۔ جیسے ہی اسکیم سامنے آئی، تقریباً تمام نیوز چینلز نے سرکاری اسکیم کی حمایت میں مہم شروع کردی۔ ایسی بحثیں شروع کی گئیں جن میں حکومت کو ہیرو/مسیحا بنانے کی کوشش کی گئی۔ حکومت کے شاہی آسمانی رویے سے تنگ آکر طلبہ میڈیا کے ماحول سے مکمل طور پر مایوس ہیں۔
مکمل طور پر سرکاری سائیڈ میڈیا نے فوج کی تیاری کرنے والے طلباء کی مایوسی بھر دی ہے۔ حکومت جو اس اسکیم میں آئے روز کچھ نیا جوڑ رہی ہے اور یہ ثابت کررہی ہے کہ یہ اسکیم جلد بازی میں اور سوچے سمجھے بغیر لائی گئی ہے۔ لاکھوں طلباء اور فوج کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں کوئی مناسب بحث نہیں ہوئی۔ صدر ہندوستان کی تینوں فوجوں کے سربراہ ہیں اور صدر خود پارلیمنٹ کا حصہ ہیں۔ ایسے میں فوج میں بھرتیوں کے اس بنیاد پرستانہ عمل میں پارلیمنٹ سے بات چیت کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی گئی۔ اس اسکیم کا جائزہ لیتے ہوئے، کیا حکومت نے معاشرے کے لیے اس کے دور رس نتائج پر بات کی؟
کیا 4 سال بعد برطرف کیے جانے والے 75 فیصد فوجیوں کی نفسیاتی جہتوں کو چھونے کی کوشش کی گئی؟ اگر کوئی کوشش کی گئی ہے تو اسے کم از کم اپوزیشن کے ساتھ ضرور شیئر کیا جائے۔ تینوں افواج کے فوجی سربراہان عسکری جہتوں پر اپنی رائے دے سکتے ہیں لیکن سماجی اور نفسیاتی جہتوں پر ان کی رائے بہت کم معنی رکھتی ہے۔
اس منصوبے کے حوالے سے بھارت کا جرمنی، اسرائیل جیسے ممالک سے موازنہ کرنے میں مسئلہ یہ ہے کہ ’حب الوطنی‘ ایک لفظ ہو سکتا ہے لیکن تقریباً ہر ملک کی حب الوطنی کی اپنی رسمیں ہیں۔ ہر ملک اپنی تاریخ سے حب الوطنی اخذ کرتا ہے اور ہر ملک کی تاریخ مختلف ہوتی ہے۔ صرف بندوق اور ٹینک کا استعمال حب الوطنی نہیں ہے۔ ایک سپاہی کی حب الوطنی اس کے گھر، خاندان اور اس کی معاشی اور سماجی حفاظت کو لپیٹ میں لے لیتی ہے، جیسے ہی اس چادر کو تبدیل کرنے یا چھوٹا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، سپاہی اپنی مکملیت کھو دیتا ہے۔
اس فوجی سالمیت کو جان بوجھ کر چھیننا ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی جہتیں ہوسکتی ہیں جو بحث و مباحثہ کے بغیر منظر عام پر نہیں آسکتیں۔ ملک کی سلامتی کے ساتھ کھیلنا بھارت کو مہنگا پڑ سکتا ہے۔ اور یہ صرف میرا ہی نہیں، ملک کے تمام ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی افسران کا بھی ماننا ہے۔
خطرہ صرف اتنا نہیں ہے۔ بحث و مباحثہ کے یرغمال ہونے کی وجہ سے اکثر سچ سامنے نہیں آتا یا سامنے آنے میں اتنا وقت لگتا ہے کہ سچ ایک پوری نسل کے لیے اپنے معنی کھو بیٹھتا ہے۔
ہندوستان کا موجودہ میڈیا قرون وسطیٰ کی آمریت میں ہندوستان کی بربادی کی داستان لکھ رہا ہے۔ مفادات کے شکار اس قومی دھارے کی مکمل سائنسی درجہ بندی ضروری ہے تاکہ ملک کو ان کے زہر سے بچایا جا سکے۔ ہر قسم کی سازشوں کے باوجود لالہ کرن کو سچائی سے کوئی نہیں روک سکتا۔
کاش !تال ٹھوکنے سے لے کر ہلہ بول، خبردار تک، اس ملک کے ٹی وی اینکرز کبھی اس ملک اور اس کی سالمیت کے بارے میں سوچیں گے! کاش !وہ سچ بولتے اور غلامی سے انکار کردیتے۔ تو آج ملک کے نوجوانوں، کسانوں،اور طلبہ کو بات بات پرسڑکوں پر اترنا نہ پڑتا کاش!
(بشکریہ: ستہ ہندی )