تحریر:وکاس کمار
جیسے ہی اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوا، بی جے پی کے کئی بڑے او بی سی لیڈر ایس پی میں شامل ہو گئے۔ اسے اکھلیش یادو کا بڑا ماسٹر اسٹروک اور یوگی آدتیہ ناتھ کی ناکامی قرار دی جا رہی ہے۔ یہ بات بی جے پی کے لیے بھی باعث تشویشہے، کیونکہ اس الیکشن میں اکھلیش یادو نان یادو او بی سی کو جوڑنا چاہتے تھے۔ وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ یہ وہی غیر یادو او بی سی ووٹ ہے، جس نے 2017 کے اسمبلی اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو جتوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
ایسے میں آئیے سمجھتے ہیںکہ اتر پردیش میں او بی سی ووٹوں کا کیا حساب ہے اور اس نے 2007 سے اب تک کس انداز میں اپنی طاقت دکھائی ہے۔
انتخابات سے 5 ماہ قبل یوپی کابینہ میں توسیع کرنی پڑی
اتر پردیش میں 44فیصد او بی سی، 20.1 فیصد دلت (ایس سی)، 0.1 فیصد ایس ٹی، 14.2 فیصد فارورڈ ذات اور 20 فیصد مسلمان ہیں۔ ان ذاتوں کے فارمولیشن کو صحیح طریقے سے سنبھالنے کے لیے الیکشن سے صرف 5 ماہ قبل یوگی کابینہ میں توسیع کی گئی، جس میں 3 نئے چہروں کو شامل کرکے ایس سی ؍ ایس ٹی کے 11 وزیر بنائے گئے۔
وہیں او بی سی کے 3 اور وزراء کو شامل کرکے ان کی تعداد 21 کی گئی۔ لیکن اس توسیع کے بعد بی جے پی کو بڑا جھٹکا اوپی راج بھر نے دیا۔ ان کی قیادت والی سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی ( ایس بی ایس پی) نے بی جے پی سے ناطہ توڑ لیا۔ اب ایس پی سے اتحاد کرلیا ہے۔ اس کےبعد سوامی پرساد موریہ سمیت 3 وزراء اور 11 ایم ایل ایز نے بی جےپی چھوڑ دی۔ سال2016 میں سوامی پرساد موریہ مایاوتی کا ساتھ چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے تھے ۔ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں انہوں نے غیر یادواو بی سی کو بی جے پی سے جوڑنے میں اہم رول اداکیاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ انتخاب جیتنے کے بعد یوگی سرکار میں وزیر بنادیے گئے۔
لوک نیتی -سی ایس ڈی ایس سروے میں چونکا دینے والے اعداد وشمار دیکھے گئےہیں۔ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یو پی میں بی جے پی کو مسلسل جیت دلانے میں او بی سی کا کتنا بڑا کردار ہے۔ 2007 کے اسمبلی انتخابات میںبی جے پی کو اترپردیش میں 5 فیصد یادو، 42 فیصد کرمی-(کوئیری) کشواہا اور 17 فیصد دیگر او بی سی ووٹ ملے۔ یہ ووٹ فیصد 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں بڑھ گیا۔ یادوؤں کا 6 فیصد ووٹ، کرمی (کوئیری) کشواہا کا 20 فیصد اور دیگر او بی سی کا 29 فیصد ووٹ ملا۔ 2012 کے اسمبلی انتخابات میں، بی جے پی کو 9 فیصد یادو ووٹ، 20 فیصدکرمی-(کوئیری) کشواہا اور 17 فیصد دیگر او بی سی ووٹ ملے۔ لیکن بعد کے انتخابات میں، بی جے پی کو کرمی (کوئیری) کشواہا اور دیگر او بی سی سے کافی ووٹ ملے۔
سال 2014 کے بعد، دیگر او بی سی نے جم کر سے بی جے پی کو ووٹ کیا
2014 کے لوک سبھا انتخابات میں، بی جے پی کو 27 فیصد یادو ووٹ، 53 فیصد کرمی-(کوئیری) کشواہا، 60 فیصد دیگر اوبی سی ووٹ ملے۔ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں، بی جے پی کو 10 فیصد یادو، 59 فیصد کرمی-(کوئیری) کشواہا اور 62 فیصد دیگر او بی سی ووٹ ملے۔ سال 2019 میں یہ تعداد اور بھی تیزی سے بڑھی۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو 23فیصد یادو ووٹ، 80 فیصد کرمی-(کوئیری) کشواہا اور 72فیصد دیگر او بی سی ووٹ ملے۔ یعنی 2012 سے 2019 تک بی جے پی کے کھاتے میں دیگر او بی سی کا ووٹ شیئر تقریباً 4 گنا بڑھ گیا۔ اس کے پیش نظر بی جے پی نے کیشو پرساد موریہ کو نائب وزیر اعلیٰ، سواتنتر دیو کو بی جے پی کا ریاستی صدر اور دھرمیندر پردھان کو انتخابات کا انچارج بنایا۔ دھرمیندر پردھان او بی سی سے آتے ہیں۔
دیگر او بی سی بھی 2019 میں مہاگٹھ بندھن کو بھی کردیا تھا فیل
دیگر او بی سی کی کیا اہمیت ہے، آئیے اسے کچھ اعداد و شمار اور لوک سبھا انتخابات 2019 کے ذریعے بھی سمجھتےہیں۔ سال 2019 میں ایس پی اور بی ایس پی نے مل کر الیکشن لڑا تھا۔ اسے مہاگٹھ بندھن کا نام دیا گیا۔ حالانکہ گورکھپور، پھول پور اور کیرانہ میں اس مہا گٹھ بندھن کاتجربہ ضمنی انتخابات میں کامیاب رہا۔ لیکن لوک سبھا میں ناکام ثابت ہوا۔ اس کے پیچھے بہت سی وجوہات تھیں، لیکن دیگر او بی سی کا بی جے پی کے ساتھ جانا ایک بڑی وجہ ثابت ہوئی۔
فارورڈ کاسٹ، کرمیوں اور کوئیری ووٹوں کے ساتھ دیگر او بی سی نے بی جے پی کا ساتھ دیا۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ مہا گٹھ بندھن کا جاٹو، مسلم اور یادو ووٹ ٹک نہیں سکا۔ الیکشن کے بعد سی ایس ڈی ایس نے ایک اعدادوشمار جاری کیا،جس کے مطابق سال 2019 میں مہا گٹھ بندھن کو کرمی – کوئیری نے صرف 14 فیصد ، دیگراوبی سی نے 18 فیصد، جاٹو نے 7 فیصد ووٹ دیا۔ وہیں بی جے پی پلس کوکرمی – کوئیری نے80 فیصد دیگر او بی سی نے 72 فیصد اورجاٹو نے 91 فیصد ووٹ کیا تھا۔
اب واپس آتے ہیں بی جے پی سےاو بی سی کے کچھ لیڈروں کاایس پی میںجانے پر۔ ایسا نہیں ہے کہ سوامی پرساد موریہ ہی بی جے پی کے سب سے بڑے او بی سی چہرہ تھے۔ کیشو پرساد موریہ بھی ہیں۔ پارٹی نے انہیں ڈپٹی سی ایم بھی بنایا۔ لیکن سوامی پرساد موریہ کے ایس پی جانے کے بعد کیشو موریہ کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ دوسرے او بی سی ووٹروں کو براہ راست اپنے کندھوں پر لانے کی ذمہ داری آ گئی ہے۔ تین دہائیوں سے یوپی کی سیاست میں سرگرم سوامی پرساد موریہ کو یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ پسماندہ طبقات اور کوئیری سماج میں ان کی مقبولیت ہے ۔
(بشکریہ: دی کوئنٹ ہندی )