نئی دہلی :
بھارت کورونا انفیکشن کی دوسری لہر کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ دریں اثنا ء یونیسیف نے کہا ہے کہ بھارت میںکووڈ 19-کی صورتحال ہم سب کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ وائرس سے وابستہ اموات، وائرس کا تغیر اورآکسیجن سپلائیمیں تاخیر کے معاملات میں دنیا بھر میں قدم اٹھانے کی ضرورت ہے اور مدد کرنی چاہئے ۔ اقوام متحدہ کے بچوں کی ایجنسی کے سربراہ نے یہ باتیں کہی ہیں ۔
اقوام متحدہ کے چلڈرن فنڈ (یونیسیف) نے بھارت میں20 لاکھ فیس شیلڈ اور 200,000سرجیکل ماسک کے علاوہ بھی مدد کی ہے۔ یونیسیف کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہینریٹا فور نے گزشتہ روز کہا کہ ہندوستان میں المناک صورتحال ہم سب کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
انہوں نے کہا کہجب تک دنیا قدم نہیں اٹھاتی ہے اور بھارت کی مدد نہیں کرتی ہے ، وائرس سے وابستہ اموات ، وائرس سے بدلاؤ اور سپلائی میں تاخیر کے معاملے میں علاقائی دنیا بھر میں از سرنو غور و فکر کیا جائے گا۔ بھارت کووڈ 19-کی دوسری لہر کے درمیان میں ہے۔ آج بھی چار لاکھ سے زیادہ نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔تقریباً4 ہزار مریضوںکی اس وبانےجان لے لی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق بھارت میں کورونا کےدو کروڑ 6 لاکھ سے زیادہ کیسز ہیں۔ ابھی تک دو لاکھ 6 ہزار سے زیادہ مریضوں کی جان چلی گئی ہے۔ عالمی ادارہ برائے صحت کے مطابق خطہ جنوبی ایشیاکے ممالک میں انفیکشن میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ بھارت میں دنیا کے 46 فیصد انفیکشن کے معاملے اور 25 فیصد کے قریب موت کے معاملے ہیں۔ ایشیا کی بات کریں تو یہاں 90 فیصد سے زیادہ معاملہ اور کورونا سے ہونے والی موت کی تعداد تنہا بھارت میں ہے۔
جنوبی ایشیا کے لیے یونیسیف کے ریجنل ڈائریکٹر جارج لاریہ – اڈ زئی نے ایک بیان میں کہاکہ تباہی کو روکنے کے لیے فوراً کارروائی اور مضبوط قیادت کی ضرورت ہے۔ لاریہ – اڈزئی نے کہاکہ سرکاروں کو تباہی کو روکنے کے لیے اپنی طاقت کے اندرسب کچھ کرنا چاہئے ۔ مدد بھیجنے والے شراکت داروں کو فوری طور پر امداد بھیجنی چاہئے۔ بین الاقوامی برادری کو بلا تاخیر اقدامات کرنا چاہئے۔
لاریہ اڈزئی نے کہا کہ یہ صرف اخلاقی ضرورت نہیں ہے۔ جنوبی ایشیا میں ایک بھیانک نیا اچھال ہم سب کو انتباہ کرتا ہے۔ اگر اسے جلد از جلد نہیں روکا گیا تو یہ وبا کے خلاف سخت محنت سے حاصل کئے گئے عالمی منافع کو پلٹنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ یونیسف نے کہا کہ جنوبی ایشیاء میں ہم جس منظر کو دیکھ رہے ہیں وہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مریضوں کے لواحقین طبی آکسیجن کی التجا کر رہے ہیں۔ ہیلتھ ورکرز بھی تھک چکے ہیں۔ اس سے ہمارے طبی نظام پر دباؤ پڑے گا۔ جنوبی ایشیامیں ویکسیننیشنکی سست رفتار بھی تشویش کا باعث ہے، اس سے صورت حال مزید سنگین ہوسکتی ہے۔