نئی دہلی: (انوپریا چٹرجی) امریکہ کی مشی گن یونیورسٹی کے محققین کی جانب سے پیر کو جاری کیے گئے ریٹوئیٹس کے مطالعے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کی بڑی جماعتوں کے سیاست دان ٹوئٹر پر صحافتی مواد کے لیے بعض اشاعتوں پر انحصار کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق اپوزیشن مجموعی طور پر میڈیا ہاؤس کے بجائے جو حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے درمیان منقسم ہے کسی خاص صحافی کی طرف رجحان رکھتا ہے ‘Indian Journalists on Twitte tor and Their Politician Footprint’ کے عنوان سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘مسائل پر صحافیوں کے موقف کو ان اداروں کے مقابلے میں سمجھا جا سکتا ہے جن کے لیے وہ رپورٹ کرتے ہیں۔
‘رپورٹ کے مطابق، "اگر ہم سیاست دانوں کی وابستگی کو دیکھیں تو تین میڈیا گروپ بی جے پی کے حق میں ہیں- زی، ریپبلک اور جاگرن گروپ۔ اس لیے حزب اختلاف کا لگاؤ زیادہ تر NDTV کی ہندی اور انگریزی نشریات کے ساتھ ہے،جبکہ انڈیا ٹوڈے گروپ بھی عام طور پر اپوزیشن کی پسند کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہےدوسری طرف، ٹائمز گروپ جیسے میڈیا ہاؤسز کے پاس فکروخیال کو ‘پولرائز’ کرنے کے لیے کئ الگ الگ نقطہ نظر پر چینلز اور اخبارات ہیں۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اگر ہم بھارت میں CNN-News18 کو چھوڑ دیں تو اپوزیشن لیڈروں کا جھکاؤ بین الاقوامی اشاعتوں کی طرف تیزی سے بڑھ گیا ہے۔ چونکہ News-18 بی جے پی کی حمایت کرتا ہے، اس لیے اپوزیشن اس کی طرف کم جھکاؤ رکھتی ہے، جبکہ اس کا مواد پارٹنر @CNN، عام طور پر امریکہ میں لبرل ازم کا حامی ہے۔مصنفین نے تقریباً 40,000 ہندوستانی سیاست دانوں اور 4,099 ہندوستانی صحافیوں کے ڈیٹا بیس تک رسائی حاصل کی۔
انہوں نے "سیاستدانوں کے اکاؤنٹ سے آخری 1,000 پیغامات (اگرچہ سیاست دان کم کثرت سے ٹویٹ کرتا ہے) کو تلاش کیا اور اس میں ہر ایک ریٹویٹ (حوالہ شدہ ٹویٹس کو چھوڑ کر) کی جانچ کی۔”تحقیق میں تقریباً ایک سال یعنی یکم اگست 2021 سے 14 ستمبر 2022 تک معلومات کو سمجھنے اور اکٹھا کرنے میں صرف کیا گیا کہ ‘کس کی صحافت کو کس پارٹی نے فروغ دیا اور کس صحافی یا میڈیا کی طرف ان کا جھکاؤ تھا’۔ (بشکریہ’دی پرنٹ’)
(نوٹ:یہ رپورٹ ایک نقطہ نظر کے طور پر پیش کی گئ ہے ۔ادارہ کا اس کے مندرجات سے اتفاق ضروری نہیں)