عبدالسلام عاصم
اگر آپ کچھ اس طرح کے جملوں کا تمہیدی سہارا لے کر بات شروع کرتے ہیں تو کبھی خوش نتیجہ، بے لاگ، غیر جانبدارانہ، غیر متعصبانہ اور وسیع النظر پیرائے میں معاملات کو آگے نہیں بڑھا پائیں گے۔
یہ جملے بظاہر اس طرح ہوتے ہیں: اسلام”امن و سلامتی“ کا سرچشمہ ہے، مسیحیت ”سب سے پیار اور کسی سے نفرت نہیں“ کا درس دیتی ہے، یہودیت میں ”زندگی سے زیادہ مقدس کوئی شئے نہیں“۔ ہندو ازم اخلاقی طور پر”صحتمند اختلاف کے ساتھ انسانی ہمدردی“ کا درس دیتا ہے، سرمایہ داری تقابلی زندگی ترقی کی راہ ہموار کرتی ہے اور کمیونزم کے نزدیک دنیا سب کیلئے ایک مشترکہ ملکیت ہے، وغیرہ وغیرہ۔
مختلف مذاہب، ازوم اور فلسفوں کی پہچان بتانے والے یہ انتہائی رواں جملے سادہ لوح، کنڈیشنڈ یا مقلد قسم کے سامعین /قارئین پر پہلا اثر یہ ڈالتے ہیں کہ اُن کی سوچنے کی صلاحیت ختم کر دیتے ہیں۔ پھر آپ اُن کے ساتھ ایک گھنٹہ ضائع کریں یا بیسیوں صفحات سیاہ کر دیں، سیشن ختم ہونے کے بعد وہ خود کو وہیں کھڑا پاتے ہیں جہاں سے اُن لوگوں نے ہاں میں ہاں ملانے کا سفر شروع کیا تھا۔
اس کے ایسے سامعین و قارئین جب دنیا کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو انہیں ہر خرابی کیلئے دوسرا ذمہ دار نظر آتا ہے۔ اِس سوچ کی شدت اُن کے اندر ایک خوف پیدا کرتی ہے جس کی کوکھ سے ہزا ر طرح کے اندیشے اور نفرتیں جنم لیتی ہیں۔اِس طرح امکانات سے”محدود پیمانے پر“ روشن اور خدشات سے ”بے انتہا آلودہ“ماحول میں، جو اب گلوبل بن چکا ہے، ایک سے زیادہ فرقوں، طبقوں اور حلقوں کے اندر دوسروں کے تعلق سے جوابی تمہیدی جملے کے ساتھ سوچنے اور بات کرنے کواز خود تحریک ملتی ہے۔یہ تمہیدی جملے جو ایک دوسرے کے خلاف ہوتے ہیں، کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں: ”۔۔۔ ارے آپ اُس کائیاں قوم کو نہیں جانتے۔۔۔“، ”۔۔۔ اماں! اُن کا تو شیوہ ہی یہی ہے۔۔۔“، ”۔۔۔بھائی! انہوں نے تو اپنے پیغمبر کو نہیں بخشا۔۔۔“، ”۔۔۔ غریبی کو تو مذہب اور سرمایہ داری نے دوام بخشا ہے۔۔۔“، ”۔۔۔ غریب تو کمیونزم کے کاروبار کیلئے خام مال ہیں۔۔۔“ وغیرہ وغیرہ۔
دنیا جو اِ س وقت عقائدکے ماننے والوں اور سائنس کے جاننے والوں کے درمیان بری طرح منقسم ہے، وہ فطرت کے اُن تقاضوں سے قطعی ہم آہنگ نہیں جن کی تکمیل کا دائرہ ایک غیر ضروری تصادم کی وجہ سے دن بہ دن محدود ہوتا جا رہا ہے۔اگر اسلام امن و سلامتی“ کا سرچشمہ ہے تو اسلامی یا کم از کم مسلم ممالک اقلیتی خون سے اس قدر لہو لہان کیوں ہیں؟ مسیحیت اگر ”سب سے پیار اور کسی سے نفرت نہیں“ کا درس دیتی ہے تو منظر نامہ غیر سفید فاموں اور غیر یورپیوں کیلئے مختلف کیوں ہے؟ یہودیت میں زندگی سے زیادہ مقدس اگر کوئی شئے نہیں اور حیات و موت پرصرف خدا قادر ہے تو فلسطینیوں کا خون کیوں بہایا جا رہا ہے؟ہندو ازم اخلاقی طور پر اگر’’صحتمند اختلاف کے ساتھ انسانی ہمدردی“ کا درس دیتا ہے تو نوبت ماب لنچنگ تک کیوں پہنچ رہی ہے؟ سرمایہ داری اگر تقابلی زندگی ترقی کی راہ ہموار کرتی ہے تواستحصالی قوتوں کے ہاتھوں وسائل سے مالامال ملکوں میں جنگوں کے بہانے لوٹ کیوں مچی ہے؟کمیونزم کے نزدیک یہ دنیا سب کیلئے ایک مشترکہ ملکیت ہے تو چین کے توسیع پسندانہ اور شمالی کاریا کے جارحانہ عزائم سے کس کا بھلا ہو رہا ہے؟ سوالات بہت ہیں جن سے الجھنے کیلئے یہ زندگی ناکافی ہے لیکن کچھ نہ سوچ کر زندگی کے حق میں محدود امکانات کا دائرہ مزیدمحدود کرنا انسانی زندگی کے ساتھ بہ انداز دیگر ایک اور بد سلوکی ہو گی جس سے بچنے کی معمولی کوشش بھی اس موہوم امید میں عمل کے رُخ پر جان ڈال سکتی ہے کہ”ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں“۔
درج بالا سطروں میں جو منظر کشی کی گئی ہے۔ اُس کو لازمی طور پر بدلنا ہے اور یہ کام صرف نئی نسل کے اُن نمائندوں سے ممکن ہے جن کے حصے کی دنیا موجودہ ادھیڑ نسل تک سلسلہ وار تباہ کی گئی ہے۔ ہم میں سے بیشتر کو عقائد سے تاریخ تک بس رٹایا گیا ہے۔بے شک، درین چہ شک سے آمنا و صدقنا تک ایک بڑی آبادی کے حافظے کو محدودکر کے مٹھی بھر دنیا پرستوں نے خوب عیش کیا اور یہ سلسلہ ہر مکتب فکر میں دراز ہوا۔ ان چیرہ دستوں نے سائنس تک کو نہیں بخشا۔اُس سے کہیں ہارسکوپ بنویا تو کہیں نیوکلیائی ہتھیار۔ایٹم بم سے انسانی بم کا سفر ایک دو روز میں طے نہیں ہوا۔ اس میں جس تیزی سے دہائیاں ضائع ہوئی ہیں۔اتنی ہی تیزی سے اب زندگیوں کا زیاں ہو رہا ہے۔پہلے اہلِ عقیدہ جہاں کارپیٹ بمباری کے جواب میں ابابیلی فوج کی دعا مانگتے تھے وہیں اب اہلِ سائنس انسانی فوج سے مقابلے کیلئے روبوٹک نفوس تیار کر رہے تاکہ اُنہیں انسانی جانوں کے نقصان کا سامنا نہ ہو۔
جہل اور علم میں انسان دشمن اشتراک کا یہ سلسلہ کہاں تک دراز ہوگا اس کا تو بس خیالی اندازہ ہی لگا یا جا سکتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ سائنس کو اس راستے پر اُن عناصر نے ہی ڈالاہے جو عقبیٰ فروشی کر کے اپنے لئے دنیا کا عیش بٹورتے آئے ہیں۔علم کا بے جا استحصال کرنے والے پہلے جہل کو تعویز اور گنڈوں سے کیش کرتے تھے، اب اس میں بھی وہ اطلاعاتی تیکنالوجی سے استفادہ کرنے لگے ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی اور فکر سے تعلق رکھنے والے صحیح الخیال لوگ اپنے اپنے حلقوں میں نئی نسل کی کمان سنبھالیں اور انہیں بغاوت کی عاجلانہ تحریک دینے کے بجائے ایسی پرورش سے ہم کنار کریں کہ وہ بچپن سے جوانی کا سفر ذہنی اور جسمانی دونوں بلوغتوں کے ساتھ طے کر سکیں۔انہیں یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہو کہ بد قسمتی سے ماضی کی طرح موجودہ جدید دور میں بھی ایسے عناصرموجود ہ ہیں جو مذاہب کی تشریخ اپنی پسند/ناپسند، کم علمی یا مطلق جہل کی بنیاد پر کرتے ہیں اوراپنی نادانی کے سبب انسانوں کے درمیان امتیاز و نفاق پیدا کرتے ہیں۔ اسی لاعلمی اور کم فہمی کا شکارکل جہاں دوسرے براہیمی عقائدلے لوگ تھے وہیں آج مذہبِ اسلام بھی اس کی زد پرہے جس سے اقوام عالم ایک بڑا حلقہ نفرت اور تعصب برتنے لگا ہے۔
ماضی میں جس طرح یہودیوں کے خلاف خوف،نفرت اور تعصب پر مبنی طرز عمل اور سوچ کے لئے جوڈو فوبیا کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، اسی طرح آج مسلمانوں کے تعلق سے اسلاموفوبیاکا مرکب استعمال کیا جارہا ہے۔ پہلا لفظ ”اسلام“ براہیمی پیغام کی حتمی شکل ہے اور دوسرا لفظ”فوبیا“ ہے جس کے معانی خوف اور اندیشہ رکھنا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے جس نے ایک سے زیادہ ملکوں میں لوگوں کو نفسیاتی مریض بنا رکھا ہے۔
اعتدال پسندمذہبی اور غیر مذہبی علمی حلقوں کواس بات پر تعجب ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف خطرناک قسم کا نامناسب رویہ وہی عناصرکیوں اختیارکرتے ہیں اور کررہے ہیں جو خود بھی کسی مذہب، ازم یا فلسفے کے ماننے والے ہیں۔موجودہ منظر نامہ ایک دوسرے کے مذہب کا تمسخر اُڑانے کا راست نتیجہ ہے؟ بحیثیت مسلمان مجھے کبھی توریت اور انجیل نہیں پڑھایا گیا لیکن ایک ایسی عمر میں جب مجھ میں سوال کرنے یا اعتراض کرنے کی جرات نہیں تھی ان صحیفوں کاتحریف شدہ کتابوں کی حیثیت سے تعارف ضرورکرایا گیا۔ میرا اندازہ ہے دوسرے فرقے اور مذاہب والے بھی اپنی نئی نسل کو ہم سے اسی طرح منفی طور پر متعارف کراتے ہوں گے۔ ایسی تعارف کی بنیاد کوئی شہادت نہیں صرف یقین ہوتی ہے۔ تو کیا ذہنی بلوغت سے قبل یہ تعارف ایسے دو حلقوں کو ایک دوسرے سے ’دور“ نہیں کرتا جو ابھی ایک دوسرے کے”قریب“ نہیں آئے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ دوری ”افواہوں“ کی راہ ہموار کرتی ہے اور قربت کا سلسلہ صحیح”اطلاع“ کی بنیاد پر دراز ہوتا ہے۔