کشی نگر (ایجنسی)
اتر پردیش پولیس کے متضاد بیانات کی وجہ سے کشی نگر میں ایک قتل کا معمہ حل ہونے کے بجائے مزید الجھ گیا ہے۔ 20 مارچ کو بابر علی نامی شخص کو پیٹ پیٹ کر نیم مردہ کر دیا جاتا ہے۔ اگر خاندان کی بات مانی جائے تو بابر بی جے پی کا حامی تھا اور اس کے پاٹی داروں نے پارٹی کو ووٹ دینے اور جیت کا جشن منانے کے لیے حملہ کیا تھا۔ واقعے کے 5 دن بعد شدید زخمی بابر لکھنؤ کے ایک اسپتال میں دم توڑ گیا، جس کے بعد اس واقعے پر سیاست گرم ہوگئی۔
مقتول بابر کے اہل خانہ کی تحریر پر مقدمہ درج کر لیا گیا اور بابر کی موت کے بعد قتل کی دفعات کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ نامزد تحریر میں بابر کے اہل خانہ نے الزام لگایا تھا کہ بابر پر حملہ ہوا جس میں وہ صرف بی جے پی کو ووٹ دینے اور پارٹی کی جیت کا جشن منانے کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مقامی پولیس کے مطابق کیس میں درج چار نامزد مجرموں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق بابر کا تعلق بی جے پی سے تھا اور اس نے حالیہ اسمبلی انتخابات میں علاقائی ایم ایل اے پی این پاٹھک کے لیے مہم بھی چلائی تھی۔ ناراض ایم ایل اے پی ایم پاٹھک نے میڈیا کو اپنے بیان میں مخالفین کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ کے ذمہ داروں کو بخشا نہیں جائے گا۔
پولیس نے اپنے پہلے بیان میں میڈیا کو پریس نوٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ اور پولیس کی مشترکہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بابر اور سامنے والی پارٹی کے درمیان نالے کو لے کر پہلے سے جھگڑا چل رہا تھا، جس پر دونوں فریقین اس سال فروری میں آمنے سامنے بھی آگئے تھے اور پولیس نے کارروائی کی تھی۔ اس بیان سے ایسا لگتا تھا کہ پولیس تفتیش میں اہل خانہ کے دعوؤں کے علاوہ نالے سے متعلق کوئی پرانی دشمنی قتل کی وجہ بنی۔
معاملہ کو طول پکڑتا دیکھ کر اعلیٰ افسران بھی ڈمیج کنٹرول موڈمیں آگئے ، گورکھپور کے ڈی آئی جی جے رویندر گوڑ پیرکو متاثرہ کے گاؤں گئے اور وہاں پر اہل خانہ سے ملاقات کی۔ میڈیا کے ایک سوال پر کہ کیا معاملہ سیاسی ہے یا آپسی رنجش سے جڑا ہے ، ڈی آئی جی گوڑ کچھ بھی کھل کر کہنے سے بچتے ہوئے انہوںنے کہاکہ متاثرہ پریوار نے جو ایف آئی آر میں باتیں کہی ہیں ،پولیس ان نکات پر تفتیش کر رہی ہے ۔
کشی نگر کے اس ہائی پروفائل کیس کی بازگشت جب لکھنؤ پہنچی تو ریاستی حکومت نے متاثرہ کے خاندان کو 2 لاکھ روپے کے معاوضے کا اعلان کیا ہے۔