تروانت پورم:
کیرالہ ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کے 6 سالہ پرانے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اس کے تحت کیرالہ میں مسلمانوں کو اقلیتی ہونے کے نام پر 80٪ فیصد اسکالرشپ دی جارہی تھی۔ باقی 20٪ فیصد اسکالرشپ عیسائیوں کو دی جارہی تھی۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد اب حکومت کے سامنے مشکل کھڑی ہوگئی ہے۔ عدالت کے اس فیصلے سے مسلمانوں میں سخت ناراضگی ہے۔ اس کے برعکس عیسائیوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔
فیلہ جمعہ کے روز چیف جسٹس ایس منی کمار اور جسٹس شاجی پی چیلی نے سنایا۔ وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے عدالت کے فیصلے کو پڑھنے کے بعد ہی فیصلہ لینے کی بات کہ ہے۔ کیرل میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل ) نے اس فیصلے پر ریاستی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے ۔ آئی یو ایم ایل نے انڈین ایکسپریس کو بتایا ہے کہ سرکارعدالت کے سامنے حقائق رکھنے میں ناکام رہی ہیں۔ اسکالرشپ کا تناب ختم کرکے پوری اسکالرشپ مسلمانوں کو دی جائے۔
کیرل کی سب سے بڑی مسلم تنظیم کا احتجاج
آئی یو ایم ایل کے قومی سکریٹری ای ٹی محمد بشیر نے کہا ، ’قومی سطح پر سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد اس اسکالرشپ کی شروعات کی گئی تھی۔ ایل ڈی ایف حکومت میں مسلمانوں کے لیےبنائی اسکیم کو ترمیم کرکے 2015 میں لاطینی کیتھولک اور عیسائیوں کو اس کا فیصد حصہ دینے کا التزام کردیا تھا ۔ سرکار کو دوسرے مذاہب کے اقلیتوں کے لیے الگ اسکیم لانی چاہئے۔
عیسائی تنظیموں نے اس فیصلے پر فوری عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا
کیرل میں عیسائی تنظیموں نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر فوری عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ چرچ کے ٹرسٹی اور جیکو بائٹ بشپ جوزف گریگورئیس نے کہاکہ عیسائیوں کی کوچنگ میں ملنے والے حصے سے انہیںمحروم کردیا گیا ہے۔ امید ہے کہ سرکار ہائی کورٹ کے فیصلے کو لاگو کرکے ہمیں انصاف دلائے گی۔ وزیر اعلیٰ ہمار(عیسائیوں) کے مسائل کو ترجیجات دیں گے۔
5000 مسلم طالبات مستفید ہوتی تھیں
کیرالہ کی 11 رکنی کمیٹی نے جسٹس راجندر سچر کمیٹی کی سفارش پر عمل درآمد کیا تھا۔ اس اسکیم کے تحت ڈگری اور پوسٹ گریجویشن کرنے والی 5000 مسلم لڑکیوں کو اسکالر شپ دی جاتی تھی ۔ فروری 2011 میں اس اسکیم میں کنورٹیڈ عیسائی اورلاطینی کیتھولک عیسائیوں کوبھی اس منصوبے میں شامل کیا گیا۔ 2015 میں حکومت نے پھر سے فیصلے میں ترمیم کیا اور نئے حکم میں کہا گیا کہ اسکالرشپ کو 80 اور 20 کے تناسب میں تقسیم کیا جائے گا۔ اس میں سے 80 فیصد مسلمان اور 20 فیصد عیسائیوں کے ہوں گے۔ اس فیصلے کو کیرالہ کے ایک وکیل نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔