تحریر:ششی تھرور
رشی سنک کا برطانیہ میں وزیر اعظم بننا کئی سطحوں پر ایک منفرد کہانی ہے۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انگریزوں نے دنیا کے نایاب ترین کاموں میں سے ایک کام کیا ہے – ایک نظر آنے والی اقلیت کو اپنی حکومت کے سب سے طاقتور عہدے پر بٹھانا۔ ایک ایسی دنیا جہاں لوگوں کی اکثریت کا نسل، مذہب اور ذات پات سے بے خبر ہونا یا رہنا تقریباً ناممکن ہے، برطانوی پارلیمنٹ کے کنزرویٹو اراکین نے سنک کو اکثریت کے ساتھ اپنا لیڈر منتخب کیا، جو کہ براؤن کلر کے ہندو اور ایشیائی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔
وہ کمیونٹی جس کی آبادی برطانوی لوگوں میں صرف 7.5% ہے۔سنک کا یہ عروج 2008 میں امریکہ میں براک اوباما کے عروج سے بھی زیادہ دلچسپ اور دلکش ہے۔ کیونکہ سیاہ فام نسل کے لوگ نہ صرف امریکہ کے سیاسی منظر نامے میں موجود رہے ہیں بلکہ واضح طور پر نظر بھی آئے ہیں۔ اس کے برعکس، ہندوستانی اور ایشیائی برطانوی سیاست میں عملی طور پر غائب رہے ہیں۔
برطانیہ نے اپنے پہلے غیر سفید فام ہندو وزیر اعظم کے لیے گرمجوشی کا مظاہرہ کیا۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک ایسا ملک جس نے طویل عرصے سے نسلی امتیاز کو پروان چڑھایا ہے، اور جس نے اپنی تمام کالونیوں میں ایک ہی نسل پرستی کا بیج لگایا ہے، وہ نسلی اختلافات کو آہستہ آہستہ بھول رہا ہے۔ کسی بھی معاشرے کے لیے اپنی برائیوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا ایک نرالی بات ہے۔ جیسا کہ برطانیہ نے کیا ہے۔
ایک صدی سے بھی کم عرصہ قبل، برطانیہ ہندوستان اور افریقہ میں کلب چلاتا تھا جہاں سیاہ فام لوگوں کو داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ آج اس کا وزیر اعظم اسی نسل کا ہے جسے اس دور کے زیادہ تر برطانوی لوگ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔اور امتیازی سلوک کرتے تھے۔
کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ اگر مشہور برطانوی رہنما اور نسل پرست ونسٹن چرچل موجود ہوتے تو سنک کا چوٹی تک کا سفر کیسا ہوتا؟ہم جانتے ہیں کہ وہ سنک کے بارے میں کیا کہیں گے جو کھلے عام ہندو مذہب کے تئیں اپنی عقیدت ظاہر کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب چرچل نے ہندوؤں کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا تھا کہ ’’ہندو جانوروں کا مذہب ماننے والے جانور جیسے ہیں ‘‘۔
اور یہاں برطانوی حکومت کی سربراہی ایک ایسا شخص کرے گا جو نہ صرف ہندو مذہب کو مانتا ہے بلکہ اس کا کھلم کھلا اعلان بھی کرتا ہے۔سنک نے اپنے ہاتھ میں بھگود گیتا کی ایک کاپی پکڑ کر عہدے کا حلف لیا۔ اس سال کے شروع میں بھی اپنی پارٹی کی تشہیر کرتے ہوئے انہوں نے اپنی تمام تصاویر اور ویڈیوز شیئر کیں جن میں وہ گائے کی پوجا کرتے ہوئے اور جنم اشٹمی کے موقع پر بھگوان کرشنا سے پرارتھنا کرتے نظر آ رہے ہیں۔
کچھ برطانویوں نے حیرت کا اظہار کیا ہے کہ ایک ہندو کسی ایسے ملک کی حکومت کی قیادت کیسے کرے گا جس کا ایک قائم مذہب ہے ( اینگلیکن چرچ عیسائیتکو مانتا ہے) اور جہاں اس وقت کی وزیر اعظم لیس ٹرس نے ملکہ کی آخری رسومات میں بائبل پڑھی تھی۔ اگر ضروری ہو تو کیا ایسے موقع پر سنک کر سکیں گے؟۔
پہلی بار پارلیمنٹ میں داخل ہونے کے سات سال بعد وزیراعظم بننا ایک حیران کن کارنامہ ہے اور یہ سنک کی ذہانت کا ثمر ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ میرٹ کو تسلیم کرتا ہے اور اسے جلد انعام دیتا ہے۔ یقیناً ہندوستان میں وہ حکمران جماعت میں پچھلی صف میں بیٹھے ہوں گے اور زیادہ سے زیادہ وزیر مملکت کے عہدے پر فائز رہے ہوں گے۔ہندوستان برطانیہ سے کیا سیکھ سکتا ہے۔ہم تصور کر سکتے ہیں کہ یہ وہ دور ہے جب بہت سے ممالک غیر ملکیوں سے ناراض ہوتے ہیں، ان کا راستہ مشکل بنا رہے ہوتے ہیں، طرح طرح کے زینو فوبیا میں مبتلا ہوتے ہیں، حب الوطنی کو ماضی کے روایتی عقائد، روایات اور تعصبات کو "حقیقت” اور "صداقت” قرار دیتے ہیں۔۔
یہ ہمارے لیے بھی ایک سبق ہے۔ جب یہ خبر آنا شروع ہوئی تو سوشل میڈیا پر مجھ سے پوچھا گیا: کیا یہاں ایسا ہو سکتا ہے؟ اس وقت ہمیں وہ ہنگامہ یاد ہے جب ایک "تارک وطن”، سونیا گاندھی کو ان کے جیتنے والے اتحاد نے وزیر اعظم بننے کی پیشکش کی تھی۔
یاد رکھیں، اس وقت کتنا کہرام مچا تھاآ کہ ایک "غیر ملکی” ایک ارب ہندوستانیوں پر حکومت کرے گا؟۔ایک ممتاز سیاستدان نے اپنے سر کے بال منڈوانے اور احتجاجاً پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دینے کی دھمکی دی تھی۔ سونیا گاندھی نے اس عہدے سے انکار کرنا مناسب سمجھا۔ بلاشبہ، منموہن سنگھ ایک "نظر آنے والی اقلیت” ہیں لیکن زیادہ تر ہندو سکھوں کو خود سے خاص طور پر "مختلف” کے طور پر نہیں دیکھتے۔
کیا ہم اس دن کا تصور کر سکتے ہیں جب ہماری بڑھتی ہوئی اکثریتی سیاست میں کوئی ایسا شخص جو ہندو، سکھ، جین یا بودھ نہ ہو، ہماری قومی حکومت کی قیادت کرے گا؟ اسی دن ہندوستان حقیقی معنوں میں ایک جمہوریت کے طور پر پختہ ہو جائے گا۔
(یہ مضمون نگار کے نجی خیالات ہیں )