نئی دہلی :(ایجنسی)
ملک میں 2020 میں قومی تعلیمی پالیسی لاگوکی گئی تھی۔ اس وقت اس کے بارے میں کوئی سیاست نظر نہیں آئی تھی اور نہ ہی اس کے بارے میں کوئی نظریاتی اختلاف سامنے آیا تھا لیکن اس سے ملک میں بڑی تعلیمی تبدیلیوں کا راستہ کھل گیا ہے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹیوں میں چار سالہ انڈرگریجویٹ پروگرام میں داخلے کے لیے کامن انٹرینس ٹیسٹ کا نفاذ کیا گیا ہے۔
جن ستہ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی کے تحت ملک میں اسکول ایجوکیشن کے نصاب میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ جہاں اب سیاست کی جھلک بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ نصاب میں تبدیلی 2014 میں مودی حکومت کے بننے کے بعد پہلی بار اور آزادی کے بعد پانچویں بار ہو رہی ہے۔ دی انڈین ایکسپریس نے اپنی تحقیقات میں پایا کہ 25 این سی ایف (نیشنل کریکولم فریم ورک) گروپ جو نصاب میں تبدیلی کے لیے قائم کیے گئے تھے، کم از کم 17 گروپوں میں آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ سودیشی جاگرن منچ کے قومی اسسٹنٹ کنوینر سے لے کر ودیا بھارتی کے سربراہ تک 24 ارکان آر ایس ایس سے شامل ہیں۔
اس سے قبل’دی انڈین ایکسپریس‘ کی تین روزہ تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ گجرات کے فسادات، ذات پات کے نظام، مسلم حکمرانوں سے متعلق کچھ ابواب کو نصاب سے ہٹا دیا گیا ہے۔ این سی ایف کے نصاب پر نظرثانی کی سربراہی 12 رکنی اسٹیئرنگ کمیٹی کر رہی ہے جس کی سربراہی ISRO کے سابق چیئرمین کے کستوریرنگن کر رہے ہیں، جسے مرکزی وزارت تعلیم نے مقرر کیا ہے۔
رابطہ کرنے پر کستوریرنگن نے کہا کہ وہ این سی ایف سے متعلق کسی بھی معاملے پر تبصرہ نہیں کریں گے۔ کمیٹی کے ایک سینئر رکن نے کہا کہ جو کام ہمیں دیا گیا ہے ہم اس کے ساتھ مکمل انصاف کریں گے اور چیزوں کو منصفانہ طریقے سے پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
بتادیں کہ این سی ایف نئی این سی ای آر ٹی کتابوں کے لئے بنیاد کے طور پر کام کرے گی اور NCF گروپوں کے تیار کردہ پیپروں کی تعداد کی بنیاد پر نصاب کو تبدیل کیا جائے گا۔ ہر NCF گروپ میں 7-10 ممبران ہوتے ہیں۔