ممبئی: (ایجنسی)
ادھو ٹھاکرے سے ملاقات میں شرد پوار اور کانگریس نے ایکناتھ شندے کو مہاراشٹر کا وزیر اعلیٰ بنانے کا مشورہ دیا ہے۔ ذرائع نے بدھ کی شام یہ معلومات دی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ این سی پی اور کانگریس نے کہا ہے کہ ایکناتھ شندے کو وزیر اعلیٰ بنائے جانے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس دوران شیوسینا کے مزید تین ایم ایل اے جو گوہاٹی پہنچے ہیں، ان میں سے ایک یوگیش کدم ہیں، جو دپولی سیٹ سے ایم ایل اے ہیں۔ وہ رام داس کدم کے بیٹے ہیں جس سے شیوسینا کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے قبل سی ایم ادھو ٹھاکرے نے مہاراشٹر میں سیاسی بحران پر خاموشی توڑی۔اپنی پارٹی شیوسینا میں تیز ہوتی بغاوت کے درمیان اپنے جذباتی پیغام میںوزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے کہاہے کہ وہ اپنا عہدہ چھوڑنے کے لئے تیار ہیں ۔
بدھ کو ایک فیس بک پیغام میں، انہوں نے کہا،’میں اپنا استعفیٰ تیار کر رہا ہوں۔ آیئے اور مجھے بتائیں کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں عہدہ چھوڑ دوں ۔ میں کرسی پکڑکر بیٹھنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘ ٹھاکرےنےکہا کہ ’ جب سرکار بنی تھی تب بھی پوار صاحب نے مجھے کہا تھاکہ میں چاہتاہوں کہ سرکار کو تم ہی چالو۔ پوار نے بھی مجھ پر بھروسہ ظاہر کیا ہے لیکن اگرمیرے لوگ ہی میرے پر بھروسہ نہیں کر پارہے ہیں تو میں کیا ہوں۔ سورت اور کہیں اور جاکر بات کرنے سے اچھا تھا کہ وہ میرے پاس آکر بات کرتے اورمجھے کہتے کہ آپ وزیر اعلیٰ مت رہئے ، تو میں اسے زیادہ بہتر سمجھتا۔ اگر ایک بھی ایم ایل اے کہتا ہے کہ ادھو ٹھاکرے کو وزیر اعلیٰ نہیں رہنا چاہئے تو میں آج کے آج میں استعفیٰ دے دوں گا۔ میں کوئی کرسی پکڑ کر بیٹھنے والا آدمی نہیں ہوں لیکن یہ کہنا ہے کہ یہ ہماری شیوسینا نہیں ہے ،یہ غلط ہے۔‘‘ اس درمیان مہاراشٹر سرکار پر منڈلاتے بحران کے درمیان این سی پی سپریمو نے ادھو ٹھاکرے سے ملاقات کی ہے۔ ان کے ساتھ ان کی بیٹی سپریا سولے بھی تھیں۔ شیوسینا کے باغی لیڈر ایکناتھ شندے بھی گوہاٹی سے پریس کانفرنس کر کے ادھو ٹھاکرے کی باتوں کا جواب دے سکتے ہیں۔
ادھو نے اصرار کیا کہ شیوسینا کبھی ہندوتوا کو ترک نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوتوا ہماری پہچان ہے۔ میں اس طرح کا پہلا وزیر اعلیٰ ہوں، اس لیے میں ہندوتوا پر بات کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مہاراشٹرا کووڈ وبا کے پھیلنے سے لڑ رہا ہے۔ میں جس طرح سے وزیر اعلیٰ کے طور پر کووڈ کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہا، یہ آپ کے تعاون سے ممکن ہوا۔انہوں نے کہا،’’مجھ پر لوگوں؍پارٹی کے لوگوں سے نہ ملنے کا الزام تھا۔ جہاں تک لوگوں سے نہ ملنے کا تعلق ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ میری طبیعت ناساز ہے اور اس کی وجہ سے لوگوں سے نہیں مل سکتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ میری طبیعت خراب ہونے کے دوران انتظامی کام نہیں ہو رہے تھے، یہ چل رہا تھا۔‘‘ ادھو نے کہا،’’لوگ کہتے ہیں کہ یہ بالاصاحب کی شیو سینا نہیں ہے، میں پوچھتا ہوں کہ کیا فرق ہے؟ یہ اب بھی وہی شیوسینا ہے۔‘‘
ادھو نے کہا،’’2014 میں جب ہم نے الیکشن لڑا اور جب 68 ایم ایل اے جیتنے کے بعد آئے تو یہ بالاصاحب کی شیو سینا تھی۔ میں خود ڈھائی سال سے وزیر اعلیٰ رہا ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ ریاست میں کیا ہو رہا ہے؟ اس وقت شیوسینا کے ممبران اسمبلی پہلے خود سورت گئے، پھر وہاں سے گوہاٹی گئے۔ کچھ جا رہے ہیں، کچھ آ رہے ہیں۔ میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ قانون ساز کونسل کے انتخابات سے پہلے بھی، ہمیں اپنے ایم ایل اے کو اپنے ساتھ رکھنا پڑ رہا ہے ۔ یہ کون سی جمہوریت ہے۔ ہمیں اپنے لوگوں کے پیچھے ہی گھومنا پڑ رہا ہے ۔ میں نے شیوسینا سربراہ سے جو وعدہ کیا کہ وزیر اعلیٰ شیوسینا کا ہوگا میں اسے پورا کروں گا۔ ’’ بی جے پی کےساتھ پارٹی کا اتحاد ٹوٹنے پر کہاکہ ہمیں ڈھائی سال پہلے الگ راہ پکڑنی پڑی۔ کانگریس اور این سی پی کےساتھ آنا پڑا ۔ شرد پوار نے بھی مجھ پر بھروسہ کیا لیکن جب میرے لوگ ہی مجھ پر بھروسہ نہیں کررہے تو میں کیا کروں۔ میں اب بھی انہیں اپنا مانتا ہوں ۔‘‘