نئی دہلی :
جب سے مودی سرکار برسراقتدار آئی ہے یونانی پیتھی اور یونانی ڈاکٹروں کے ساتھ سوتیلا برتاؤ اختیار کیا گیا ہے ، جس سے دنیا کے قدیم طریق علاج کا وجود اور بقا خطرے میں ہے، ایسا لگتاہے کہ سرکار یونانی پیتھی کو تباہ وبرباد کرنا چاہتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ گزشتہ سات سالوں کے دوران یونانی شعبہ میں خالی کسی بھی پوسٹ کو بھرا نہیں گیا ہے۔ ملک میں یونانی ڈاکٹروں کی سب سے باوقار ،فعال ،معتبر اور سرگرم تنظیم آل انڈیا یونانی طبی کانگریس نے یہ سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ یونانی کو اس کامطلوبہ اورجائز مقام دیاجائے اور کانگریس کے صدر پروفیسر مشتاق احمد نے تنظیم کی نیشنل ایگزیکٹیو میٹنگ کے دوران شد ومد سے یہ ایشو اٹھایا۔
میٹنگ کے دوران انہوں نے کہاکہ جب 2014 میں وزارت آیوش بنائی گئی تو بجا طور پر امید کی گئی کہ یونانی میڈیسن کی ترقی پر بھی بھرپور توجہ دی جائے گی ،کیونکہ وزارت نے اس کو ہندوستانی روایتی طبی سسٹم کاحصہ بتایا مگر ایسا لگتا ہے کہ حکومت ہند نے یونانی میڈیکل سسٹم کو سائڈ لائن کردیا۔ انہوں نے کہاکہ سرکار بتائے کہ آیوش میں اس کے آفیسر کی سات اسامیاں خالی ہیں ان پر کوئی تقرری کیوں نہیںہوئی۔ یونانی ڈسپنسریوں کی تعداد میں اضافہ کیوں نہیں ہوا۔ دوسری طرف 2020 میں آیوش نے 522نئی ڈسپنسریاں کھولیں۔ اس طرح سینٹری یونانی کونسل میں ریسرچرس کی 50 جگہیں خالی ہیں، سرکارکی کوئی توجہ نہیں دکھا رہی ہے ۔ یونانی پر یقین رکھنے والے اس جارحانہ اور متعصبانہ رویہ سے حیران ہیں۔ پروفیسر مشتاق احمد نے بتایاکہ اس تعلق سے وزیر اعظم کو خط لکھ کر ان امور کی طرف توجہ دلائی گئی ،لیکن کوئی جواب آیا اور نہ ہی عملی طور پر قدم اٹھایا گیاپھر بھی ہم امید رکھتے ہیں کہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘ کابھرم رکھاجائے گا۔
انہوںنے بتایاکہ پی ایم سے مطالبہ کیاگیا ہے کہ آریوویدکی طرح یونانی ڈاکٹروں کو بھی سرجری کی اجازت ملے ،کیونکہ یہ ان کی تعلیم کا حصہ رہی ہے۔ دریں انثاء ’روز نامہ خبریں‘ سے گفتگو کے دوران یونانی طبی کانگریس کے قومی صدر نے کہاکہ آریووید پوسٹ گریجویٹ کو سرجری کی اجازت اچھا فیصلہ ہے ، مگر یونانی ڈاکٹروں کو محروم رکھنے کی وجہ ناقابل فہم ہے ،جبکہ دونوں کا نصاب تقریباً یکساں ہے۔ انہوں نے یاد دلایاکہ سرکار نے آریووید صلاح کار کو آیوش کمیشن کا ممبر بنایا ہے، جبکہ یونانی صلاح کار اس کاحصہ نہیں ہے۔ پروفیسر مشتاق احمد نے کہاکہ یہ سراسر متعصبانہ اور سوتیلا پن کا رویہ ہے، اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔