نئی دہلی :(ایجنسی)
جموں و کشمیر میں اسمبلی سیٹوں کی حد بندی کا کام زور و شور سے جاری ہے۔ پیر کو حد بندی کمیشن کی میٹنگ ہوئی، جس میں جموں میں 6 اضافی نشستیں اور وادی کشمیر میں ایک اور نشست دینے کی تجویز پیش کی گئی۔ اگر یہ تجویز منظور ہو جاتی ہے تو جموں کو سیاسی برتری حاصل ہو جائے گی اور ریاست کے وزیر اعلیٰ کا فیصلہ کرنے میں اس خطے کا کردار اہم ہو جائے گا۔ اس سے قبل وادی کشمیر میں نشستوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے صرف اسی خطہ کاغلبہ رہتا تھا۔ پیر کو ہوئی اس میٹنگ میں مرکزی وزیر اور رکن پارلیمنٹ جتیندر سنگھ کے علاوہ بی جے پی کے ایک اور رکن پارلیمنٹ جگل کشور بھی موجود تھے۔
یہی نہیں نیشنل کانفرنس لیڈر فاروق عبداللہ، ریٹائرڈ جسٹس حسنین مسعودی اور محمد اکبر لون بھی شامل تھے۔ یہ میٹنگ دہلی کے اشوکا ہوٹل میں ہوئی۔ اگر کمیشن کی سفارشات کو مان لیا جاتا ہے تو جموں میں اسمبلی سیٹوں کی تعداد بڑھ کر 43 ہو جائے گی جب کہ وادی کشمیر میں اسمبلی سیٹوں کی تعداد 47 ہو جائے گی۔ اس طرح دونوں علاقوں کے درمیان سیٹوں کا فرق کم ہو کر صرف 4 رہ جائے گا۔ کل نشستوں میں سے قبائلی برادری کے لیے 9 اور دلت برادریوں کے لیے 7 نشستیں ریزرو کرنے کی بھی تجویز ہے۔ متعلقہ ارکان سے کہا گیا ہے کہ وہ 31 دسمبر تک اپنی تجاویز پیش کریں۔
سپریم کورٹ کی ریٹائرڈ جج رنجنا دیسائی، چیف الیکشن کمشنر سشیل چندر اور جموں و کشمیر کے چیف الیکشن کمشنر کو حد بندی کمیشن میں شامل کیا گیا ہے۔ کمیشن کو 6 مارچ تک تمام نشستوں کی حد بندی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یونین ٹیریٹری میں سیٹوں اور ان کی حدود کا فیصلہ ہونے کے بعد ہی انتخابات ہوں گے۔ تاہم ریاست کی غیر بی جے پی جماعتوں نے اس کمیشن پر کئی بار سوال اٹھائے ہیں۔ حال ہی میں محبوبہ مفتی کی پارٹی پی ڈی پی نے کہا تھا کہ ہمیں حد بندی کمیشن پر کوئی بھروسہ نہیں ہے کیونکہ یہ بی جے پی کے ایجنڈے پر کام کر ہا ہے۔