کیف :(ایجنسی)
روس نے یوکرین پر فوجی کارروائی کا اعلان کیا ہے۔ اس کا اعلان کرتے ہوئے صدر ولادی میر پیوتن نے یوکرائنی فوجیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں، بصورت دیگر روس اس خونریزی کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔ روسی فوجی کارروائی کے اعلان نے یوکرین میں رہنے والے لوگوں بالخصوص اقلیتی کریمیا کے تاتاری مسلمانوں کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔
53 سالہ تاتاری مسلمان عرفان قدوسوف کی عمر تقریباً 20 سال تھی جب وہ 45 سالہ تاتاری مسلمانوں کی جلاوطنی کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ یوکرین واپس آئے۔ 1991 میں روس کی تحلیل کے بعد یوکرین نے خود کو آزاد قرار دیا، جس کے بعد کریمیا کے تاتار مسلمان اپنے گھر یعنی یوکرین کے کریمیا میں واپس آنے کے قابل ہو گئے۔ ان میں قدوسوف بھی شامل تھا۔
یوکرین واپس آنے کے بعد لوگ خوشی سے رو رہے تھے
یوکرین واپسی کو یاد کرتے ہوئے وہ رو پڑتے ہیں۔ الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ‘بزرگ جب پہلی بار جہاز سے اتر کر یوکرین کی سرزمین پر قدم رکھا تو انہوں نے یوکرین کی مٹی کو چوم لیا۔ لوگ خوشی سے رو رہے تھے…وہ اپنے گھروں کو لوٹ آئے تھے۔ لیکن پھر سال 2014 میں روس نے یوکرین پر حملہ کر کے یوکرین کے حصے کریمیا کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ کریمیا کے روسی قبضے سے الحاق کے بعد کریمیا کے تاتار مسلمانوں کو ایک بار پھر کریمیا چھوڑ کر یوکرین فرار ہونا پڑا۔
یوکرین آکر قدوسوف نے دارالحکومت کیف میں کریمین تاتار ریستوران شروع کیا جو لوگوں میں بہت مقبول ہے۔ قدوسوف بھی اپنی زندگی معمول کے مطابق گزارنے لگے تھے لیکن ایک بار پھر روسی حملے کی خبر نے اسے خوفزدہ کر دیا ہے۔
کریمیائی تاتار مسلمانوں کی تاریخ کیا ہے؟
اصل میں ترکی سے تعلق رکھنے والے تاتاری مسلمان پہلے روس میں رہتے تھے۔ 1944 میں جرمن آمر ایڈولف ہٹلر کے زوال کے بعد سوویت یونین کے حکمران جوزف اسٹالن نے دو لاکھ کریمیائی تاتاریوں کو غیر انسانی طریقے سے ازبکستان جلاوطن کر دیا۔ انہیں مویشیوں کی ٹرین میں لاد کر ملک بدر کر دیا گیا۔
اسٹالن کی حکومت نے تاتاریوں پر نازیوں کے ساتھ ملی بھگت کا الزام لگایا۔ اس جلاوطنی کے دوران نصف تاتاری مسلمان مر گئے۔ ان کی موت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یا تو کسی بیماری سے مر گئے یا پھر فاقہ کشی کا شکار ہو گئے۔
یوکرین نے تاتاریوں کی ملک بدری کو نسل کشی قرار دیا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد جب یہ تاتاری کریمیا میں اپنے گھروں کو لوٹے تو ان کے ساتھ بھی امتیازی سلوک کیا گیا۔ ان کے مکانات اور زمینیں ضبط کر لی گئیں اور انہیں نہ تو مکان خریدنے کی اجازت دی گئی اور نہ ہی کوئی ان کو اپنے کمرے کرائے پر دینے پر راضی ہوا۔
کیف سے تعلق رکھنے والی 34 سالہ زخیدہ ایڈیلووا کہتی ہیں کہ کریمیا میں ان کی دادی کا اپنا گھر تھا لیکن انہیں 1944 میں اسٹالن نے ملک سے نکال دیا تھا۔ روس کے ٹوٹنے کے بعد اس کی دادی اس کے گھر آگئیں لیکن یہاں انہیں مایوسی ہوئی۔ زخیدہ کہتی ہیں، ‘وہ اپنے گھر پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ گھر کے مالکان کو جب پتہ چلا کہ میری دادی اس کا گھر چاہتی ہیں تو انہوں نے ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔
تاتاری مسلمانوں پر نازیوں کی حمایت کا الزام
سوویت یونین میں لوگ تاتاریوں کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ نازیوں کی حمایت کرتے تھے اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا تھا۔ تاہم، بہت سے تاتاروں نے ہٹلر کی فوج کے خلاف ریڈ آرمی میں بھی خدمات انجام دیں۔
یوکرین میں تاتاریوں کے بارے میں لوگوں کا تاثر وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتا گیا۔ 1991 میں، یوکرین کی حکومت نے تاتاریوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیم مجلس قائم کی۔
جب روس نے کریمیا پر قبضہ کر لیا
مارچ 2014 میں، روس نے ایک متنازع ریفرنڈم کا سہارا لے کر یوکرین کے حصے کریمیا کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ 3 لاکھ تاتاری مسلمانوں نے اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا اور روس کے خلاف احتجاج میں سڑکوں پر نکل آئے۔ روسی فوجیوں نے تاتاریوں اور دیگر مظاہرین پر طاقت کا استعمال کیا اور بہت سے مظاہرین غائب ہونے لگے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اس دوران ایک تاتار مسلمان مظاہرین بھی لاپتہ ہو گیا اور چند روز بعد اس کی لاش گہرے زخموں کے ساتھ ملی۔ قدوسوف یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے اور اپنے چار بچوں اور بیوی کے ساتھ کریمیا چھوڑ کر یوکرین چلے گئے۔
بعد ازاں روسی حکام نے کریمیا میں تاتار تنظیم میزلیس کو بند کر دیا۔ روس نے کہا کہ یہ ادارہ ایک انتہا پسند تنظیم ہے جو بند ہے۔ ایک تاتاری ٹی وی چینل بھی بند کر دیا گیا۔ تاتاری آبادی کا تقریباً 10 فیصد کریمیا سے یوکرین فرار ہو گیا۔
اب بھی باقی ہے امید
روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے اور یوکرین کے کئی حصوں سے گولیوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ ایسی صورت حال میں بھی قدوسوف کو امید ہے کہ یوکرین کی فوج روس پر فتح حاصل کر لے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ یوکرین کی فوج 2014 کے مقابلے میں اب مضبوط ہے اور وہ یقینی طور پر جیت جائے گی۔ قدوسوف کو یہ بھی امید ہے کہ یوکرین کریمیا کو دوبارہ متحد کر دے گا۔
وہ کہتے ہیں، ‘کریمیائی تاتار یقیناً دوبارہ واپس آئیں گے۔ میرے دادا دادی کو جلاوطن کر دیا گیا اور 45 سال تک قید کر دیا گیا۔ لیکن وہ ہمیشہ مجھ سے کہتے تھے کہ ہم ایک دن دیکھ کر لوٹیں گے اور وہ دن آگیا جب ہم واپس آئے۔
سورینا سیٹویلیف نے ایک کریمیائی تاتار مسلمان سے شادی کی ہے۔ وہ ایک تاتاری ریستوراں چلاتی ہیں جو گرم ریت پر تیار کی گئی سوپ، پیسٹری کے پکوڑے اور روایتی ترک کافی پیش کرتی ہے۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ایک دن کریمیا دوبارہ یوکرین کا حصہ ہو گا۔
یوکرین میں تاتاری مسلمانوں کی حالت
یوکرین نے تاتاریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں اور وہ ملک میں ہر شعبے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ کمیلا یورچینکو یوکرین کے مسلمانوں کی مذہبی انتظامیہ میں کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تاتاری اقلیت یوکرین کی مسلم کمیونٹی کا اٹوٹ حصہ ہے۔
یوکرین میں تقریباً 400,000 مسلمان آباد ہیں جن میں سے زیادہ تر کریمین تاتار ہیں۔ یوکرین کے دارالحکومت کیف میں تقریباً دس لاکھ مسلمان رہتے ہیں، جن میں سے اکثر کا تعلق ازبکستان، آذربائیجان اور قازقستان سے ہے۔ کیف کی الرحمہ مسجد میں بچے اپنی مادری زبانوں بشمول کریمیائی تاتار میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔
تاتاری مسلمانوں پر روسی حملے کا کیا اثر ہوا؟
العربیہ نیوز سے بات کرتے ہوئے کریمین تاتار نیشنل موومنٹ کے بین الاقوامی امور کے مشیر ہاکان کریملی کا کہنا ہے کہ روسی حملہ تاتاریوں کے لیے مکمل خودکشی ثابت ہوگا۔ انہوں نے یاد کیا کہ 1944 میں روس نے تاتاریوں کو اسیر جلاوطنی میں بھیج دیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’وہ کسی بھی قیمت پر یوکرین میں ہی رہیں گے اور کسی بھی طرح روس نہیں جانا چاہیں گے۔ ‘ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تاتاری مسلمانوں پر روسی حملے کا وہی اثر پڑے گا جیسا کہ یوکرین میں دیگر کمیونٹیز پر ہوگا کیونکہ یوکرین کی حکومت مذہبی بنیادوں پر منقسم نہیں ہے۔
یوکرین میں اسلام فوبیا کے خلاف کام کرنے والے مارکشنر کا کہنا ہے کہ تاتاری مسلمانوں پر روسی حملے کے اثرات کا اندازہ لگانا ابھی قبل از وقت ہے۔ وہ کہتے ہیں، ‘ہمیں چوکس رہ کر صورت حال پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ مسلمانوں بالخصوص کریمیا میں رہنے والے مسلمانوں کو غلط جذبے سے نشانہ نہ بنایا جائے۔