نئی دہلی: (ایجنسی)
سپریم کورٹ نے طلاق حسن کے خلاف ایک مسلم خاتون کی درخواست پر جلد سماعت سے انکار کر دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے کی سماعت گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد ہوگی۔ تاہم، بی جے پی لیڈر اور وکیل اشونی اپادھیائے نے سپریم کورٹ سے کہا کہ یہ قومی اہمیت کا معاملہ ہے، اس لیے اس کی جلد سماعت کی جانی چاہیے۔ اس پر جسٹس ایم آر شاہ نے کہا کہ’ آپ سب کے مفادات کے علمبردار نہیں ہیں۔‘
اپادھیائے نے کہا، ’یہ نوئیڈا کی ایک 30 سالہ صحافی کے ساتھ ہوا ہے اور اگر اسے تیسری طلاق دی جاتی ہے، تو حلالہ کا واحد آپشن بچتا ہے، جہاں اسے کسی دوسرے آدمی کے ساتھ سونا پڑے گا۔ اس میں قومی مفاد شامل ہے۔‘
اس پر جسٹس ایم آر شاہ نے کہا کہ ’آپ سب کے مفاد کے حمایتی نہیں ہیں۔‘ سپریم کورٹ نے ابتدائی طور پر اپادھیائے کو اس کے بجائے ہائی کورٹ جانے کو کہا تھا۔ تاہم، اپادھیائے کی درخواست پرسپریم کورٹ نے گرمیوں کی تعطیلات کے بعد معاملہ فہرست کرنے پر اتفاق کیا۔
عرضی میں مرکز کو ہدایت دینے کی مانگ کی گئی ہے کہ وہ تمام کے لئے صنفی غیر جانبدار مذہب ، طلاق کے لئے مساوی بنیادوں اور سب کے لئے طلاق کے لئےیکساں طریقہ کار رہنما خطوط وضعکرے۔ یہ درخواست غازی آباد کی صحافی بینظیر حنا نے دائر کی ہے۔ اس نے درخواست میں الزام لگایا ہے کہ اس کا شوہر اور اس کے گھر والے اسے جہیز کے لیے تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔ جب اس نے انکار کیا تو اس نے یکطرفہ طور پر ایک وکیل کے ذریعے اسے طلاق حسن دے دیا ۔
اس سے قبل سپریم کورٹ نے جلد سماعت کی مانگ کے لئے رجسٹرار کے پاس جانے کو کہا تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اگر رجسٹراربات نہیں سنتے ہیں تو وہ پھر سے عدالت میں آ سکتے ہیں۔درخواست گزار بینظیر کی جانب سے پنکی آنند نے کہا تھا کہ ان کا 8.5 سال کا بیٹا ہے۔ خاتون کو پہلا نوٹس 20 اپریل کو ملا تھا۔ معاملے کی جلد سماعت کی جائے۔ بتا دیں کہ گزشتہ ہفتے بھی سپریم کورٹ نے جلد سماعت سے انکار کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ درخواست گزار اگلے ہفتے جلد سماعت کے لیے مینشن کریں۔ مسلم خاتون کی جانب سے پنکی آنند نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ 19 اپریل کو ان کے شوہر نے انہیں طلاق حسن کے تحت پہلا نوٹس جاری کیا تھا۔ اس کے بعد 20 مئی کو دوسرا نوٹس جاری کیا گیا۔ اگر عدالت مداخلت نہیں کرتی ہے تو 20 جون تک طلاق کی کارروائی مکمل ہو جائے گی، اس لیے سپریم کورٹ کو جلد سماعت کرنی چاہیے لیکن جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا تھا کہ ‘پہلا نوٹس 19 اپریل کو جاری کیا گیا تھا لیکن آپ نے دوسرے نوٹس تک انتظار کیا۔ہم معاملے پر عدالت کھلنے کے بعد سماعت کریں گے ۔‘
طلاق حسن کو چیلنج کرنے والی خاتون کی درخواست پر فوری سماعت کی ضرورت نہیں۔ جج نے یہ بھی پوچھا کہ اس معاملے میں پی آئی ایل کیوں دائر کی گئی۔ تاہم درخواست گزار کی استدعا کے بعد عدالت نے کہا کہ وہ مینشن اگلے ہفتے کریں۔
دراصل طلاق حسن کو لے کر سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی عرضی بھی دائر کی گئی تھی۔ بینظیر حنا نے طلاق حسن کو یکطرفہ، صوابدیدی اور برابری کے حق کے خلاف قرار دیتے ہوئے درخواست دائر کی ہے۔ درخواست گزار کے مطابق یہ روایت اسلام کے بنیادی اصول میں شامل نہیں ہے۔ درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ اس کے سسرال والوں نے اسے شادی کے بعد جہیز کے لیے ہراساں کیا۔ جہیز کی بڑھتی ہوئی مانگ پوری نہ کرنے پر اسے طلاق دے دی۔ یہ رواج ستی کی طرح ایک سماجی برائی ہے۔ عدالتیں اسے ختم کرنے کو غیر قانونی قرار دیں کیونکہ ہزاروں مسلمان خواتین اس برائی کی وجہ سے شکار ہوتی ہیں۔
طلاق حسن کیا ہے؟
اسلام میں طلاق کے تین طریقے زیادہ رائج تھے۔ مفسرین اسلام کے مطابق طلاق احسن میں شوہر اس وقت بیوی کو طلاق دے سکتا ہے جب اس کی ماہواری نہ چل رہی ہو (طہرہ کی مدت)۔ اس کے بعد تقریباً تین ماہ تک علیحدہ کی مدت یعنی عدت کے بعد چاہے تو وہ طلاق واپس لے سکتا ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو عدت کے بعد طلاق کو دائمی سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کے بعد بھی اگر یہ جوڑا چاہے تومستقبل میں شادی کر سکتا ہے، اسی لیے اس طلاق کو احسن یعنی افضل کہا جاتا ہے۔
طلاق کی دوسری قسم طلاق حسن ہے۔ اس کا طریقہ بھی طلاقِ احسن جیسا ہے، لیکن اس میں شوہر بیوی کو تین الگ الگ بار طلاق کہتا ہے، وہ بھی اس وقت جب بیوی کی ماہواری نہ چل رہی ہو۔ یہاں شوہر کو عدت ختم ہونے سے پہلے طلاق واپس لینے کی اجازت ہے۔ اگر یہ طلاق یافتہ جوڑا چاہے تو مستقبل میں دوبارہ نکاح کر سکتا ہے۔ اس عمل میں تیسری بار طلاق کہنے کے فوراً بعد اسے حتمی سمجھا جاتا ہے۔ یعنی تیسری طلاق کے بولے جانے سے پہلے نکاح مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا۔
تیسری طلاق کے بعد اور طلاق پر مہر لگ جانے کے بعد، طلاق یافتہ جوڑا اسی وقت دوبارہ نکاح کر سکتا ہے جب عدت پوری ہونے کے بعد بیوی کسی دوسرے شخص سے شادی کرے۔ اس عمل کو حلالہ کہتے ہیں۔ اگر پرانا جوڑا دوبارہ نکاح کرنا چاہے تو بیوی کو چاہیے کہ نئے شوہر سے طلاق لے اور پھر عدت میں رہے۔ پھر وہ پچھلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے۔