یہ طالبان کے زیرِ انتظام کابل میں سیاحت اور میزبانی کی صنعت کے لیے بنائے گئے ایک انسٹی ٹیوٹ کی کلاس کا منظر ہے جہاں 30 سے زائد افراد ایک کمرے میں جمع ہیں۔
تربیت حاصل کرنے والوں نے کوئی خاص یونیفارم نہیں پہن رکھا۔ یہ رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس ہیں۔ یہ سب مختلف پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک طالبِ علم ماڈلنگ کرتا رہا ہے اور اس گروپ میں 17 سال کا لڑکا بھی شامل ہے جسے اس سے قبل کسی ملازمت کا تجربہ نہیں ہے۔
ان طلبہ کی عمر، تعلیمی پس منظر اور پیشہ ورانہ تجربہ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ یہ سیاحت یا میزبانی کی صنعت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ یہ سبھی مرد ہیں کیوں کہ افغان خواتین پر پرائمری کے بعد تعلیم حاصل کرنے کی پابندی ہے۔
اس کلاس میں جمع ہونے والے افراد دنیا میں سیاحت کے بارے میں چاہے کچھ نہ جانتے ہوں۔ لیکن دنیا کے سامنے افغانستان کی ایک مختلف تصویر لانے کی شدید خواہش رکھتے ہی اور طالبان بخوشی ان کی مدد کر رہے ہیں۔
افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کو خود بھی عالمی سطح پر اپنے امیج کا مسئلہ درپیش ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم اور عملی زندگی میں ان کے کردار کو محدود کرنے کی وجہ سے طالبان عالمی برادری کے لیے ناپسندیدہ ہیں۔ افغانستان کی معیشت بدحالی کا شکار ہے، انفرا اسٹرکچر تباہ حال ہے اور غربت عروج پر ہے۔
ان حالات کے باوجود بڑی تعداد میں غیر ملکی افغانستان کا رُخ کر رہے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ طالبان حکومت کے قیام کے بعد تشدد کے واقعات میں کمی ہے۔ اس لیے دبئی جیسے سیاحتی مراکز سے افغانستان کا رخ کرنے والی پروازوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اگرچہ ایسے افراد کی تعداد زیادہ نہیں ہے جو سیاحت کے لیے عام ڈگر سے ہٹ کر کابل آ رہے ہیں اور ماضی میں بھی یہ تعداد غیر معمولی نہیں رہی تھی۔ لیکن موجودہ حالات میں بھی افغانستان میں سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہوا ہے۔
سال 2021 میں صرف 691 غیر ملکی سیاح افغانستان آئے تھے۔ 2022 میں یہ تعداد 2300 ہو گئی اور گزشتہ برس 7000 غیر ملکی سیاح افغانستان آئے ہیں۔
کابل میں محکمہ سیاحت کے سربراہ محمد سعید کہتے ہیں کہ اپنی آبادی اور افغانستان سے قربت کی وجہ سے سب سے زیادہ سیاح چین سے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ چینیوں کی جانب سے افغانستان کو خطے کے دیگر ممالک پر ترجیح دینے کی کچھ اور وجوہ بھی ہیں۔
محمد سعید کے بقول: ’’چینی کہتے ہیں کہ وہ پاکستان نہیں جانا چاہتے کیوں کہ وہاں انہیں حملوں کا خطرہ ہے۔ مجھے ملنے والے جاپانی بھی یہی کہتے ہیں۔ یہ بات ہمارے لیے بہت اچھی ہے۔‘‘
لیکن ساتھ ہی افغانستان آنے والے سیاحوں کو بعض بڑے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
افغانستان کا ویزا حاصل کرنا مشکل ہے اور اس کی قیمت بھی زیادہ ہے۔ طالبان حکومت کے قیام کے بعد کئی ممالک کے ساتھ افغانستان کے تعلقات میں کشیدگی آ چکی ہے۔ اس کے علاوہ اب تک دنیا کے کسی ملک کے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
افغانستان میں سڑکوں کی حالت بہت بری ہے۔ کئی شہروں کو آپس میں ملانے والی سڑکیں خستہ حال ہیں اور کئی علاقوں میں سڑک ہی نہیں ہے۔ ایک اور بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اکثر ایئر لائنز افغانستان کے لیے پروازیں چلانے سے گریز کرتی ہیں۔
سب سے زیادہ بین الاقوامی پروازیں دار الحکومت کابل میں اترتی ہیں لیکن کسی بھی افغان ایئر پورٹ کے لیے چین، یورپ یا بھارت جیسی سیاحوں کی بڑی مارکیٹس سے براہ راست پرواز نہیں آتی۔
ان مسائل کے باوجود محمد سعید افغانستان کو خطے میں سیاحت کا سب سے بڑا مرکز بنانا چاہتے ہیں اور ان کے عزائم کو طالبان قیادت کی تائید بھی حاصل ہے۔
احمد زئی کا کہنا ہے: ’’دنیا کہتی ہے کہ افغانستان ایک پسماندہ ملک ہے۔ یہاں صرف غربت اور جنگ ہے۔ ہماری تاریخ پانچ ہزار سال پر پھیلی ہے۔ دنیا کے سامنے افغانستان کے نئے مناظر آنے چاہئیں۔‘‘
سیاحتی شعبوں میں تربیت کے لیے جاری کلاسوں میں دست کار بھی شامل ہیں۔
یہاں زیرِ تربیت طلبہ کی تربیت کے لیے ایک ایسا موضوع بھی رکھا گیا ہے جو باقاعدہ نصاب میں شامل نہیں۔ یہ موضوع اس بارے میں ہیں کہ غیر ملکی خواتین کے ساتھ برتاؤ کیسا ہونا چاہیے یا ان کے بعض رویے مقامی روایات سے مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔