نئی دہلی:گیانواپی کیس کی سماعت جمعہ (02 فروری) کو الہ آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔ اب اس کیس کی اگلی سماعت 6 فروری کو ہوگی۔ تب تک عدالت نے پوجا پر پابندی نہیں لگائی ہے اور مناسب سیکورٹی فراہم کرنے کی ہدایت دی ہے۔
دریں اثنا جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اس معاملے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے 1991 میں بنائے گئے قانون پر بھی اعتراض کیا تھا کہ بابری مسجد کو اس قانون سے کیوں ہٹایا جا رہا ہے۔ جہاں بابری مسجد ہے وہاں رام جنم بھومی نہیں ہے۔ بابری مسجد کے فیصلے نے ظاہر کر دیا کہ یہ کسی بھی مسجد کے ساتھ ہو سکتا ہے تو پھر قانون کی کتابوں کو جلا دو اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کسی مذہب کو انصاف نہیں ملے گا۔ آپ قانون کیوں پڑھاتے ہیں؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ بابری مسجد کے بعد کئی مساجد مسائل میں گھری ہوئی ہیں۔ اس وقت جس تیزی سے یہ مسائل پیدا ہوئے ہیں اس نے عدالتوں میں ایسی لچک اور سستی پیدا کر دی ہے کہ عبادت گاہوں پر قبضہ کرنے والے کامیاب ہو رہے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ اگر مسلمانوں میں یہ سوچ ہو کہ تمام مندروں کو گرانا ہے تو مندروں اور مسجدوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں بچے گا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے جلد بازی میں فیصلہ کیا۔ دوسرے فریق کو بحث کا موقع نہیں دیا گیا۔ انصاف فراہم کرنے والے اداروں پر اعتمادکو ٹھیس پہنچی ہے۔ بابری مسجد کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مندر کو گرا کر مسجد نہیں بنائی گئی۔ عدالت کا کام عقیدے پر فیصلہ کرنا نہیں، انصاف دلیل کے مطابق ہوتا ہے۔ باہمی فاصلے پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے’
مولانا مدنی نے کہا کہ 1991 کا قانون ایک اہم قانون ہے۔ اس قانون کی مدد سے ہم لڑائیوں کو روک سکتے ہیں۔ اس قانون پر ایمانداری سے عمل نہ کیا گیا تو ملک میں فسادات شروع ہو جائیں گے۔ انصاف کا ایک ہی معیار ہونا چاہیے۔ اگر اس کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد ختم ہو جائے تو یہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ہم اس معاملے پر سپریم کورٹ بھی جائیں گے۔ عدالت میں اپنا موقف رکھیں گے اور سچ سب کے سامنے لائیں گے۔