ملائیشیا کے سینیئر رہنما انور ابراہیم نے الیکشن نتائج پر کئی دنوں تک تعطل کے بعد ملک کے نئے وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ نئے رہنما کا تقرر شاہ سلطان عبد اللہ نے کیا ہے، اس آواخرِ ہفتہ ہونے والے انتخابات کے غیر معمولی نتیجے میں ہنگ پارلیمان وجود میں آئی تھی۔ اس الیکشن میں حکومت بنانے کے لیے نہ تو انور ابراھیم اور نہ ہی سابق وزیر اعظم محی الدین یاسین کو واضح اکثریت حاصل ہوئی۔ ابھی یہ فوری طور پر واضح نہیں ہے کہ انور ابراھیم کس کے ساتھ اتحاد کریں گے
یہ واضح نہیں کہ نئی حکومت کیا شکل اختیار کرے گی۔ آیا یہ پارٹیوں کا باضابطہ اتحاد ہوگا، اقلیتی حکومت ہوگی جس میں دیگر جماعتوں کے ساتھ اعتماد کے معاہدے کی پیشکش ہوگی، یا پھر تمام اہم جماعتوں سمیت قومی اتحاد کی حکومت ہوگی۔ اس فیصلے سے انور ابراہیم کی قابلِ ذکر سیاسی کشمکش کا خاتمہ ہوا جو ایک شاندار مقرر اور 25 سال پہلے، ایک تیزی سے ابھرتا ہوا ستارہ تھے ، اور ہر کسی کو توقع تھی کہ وہ اس وقت کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کی جگہ لے لیں گے۔ اس وقت مہاتیر محمد اور ان کے درمیان ایشیائی مالیاتی بحران سے نمٹنے کے بارے میں شدید اختلافات ہو گئے تھے اور انہیں کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات جیل بھیج دیا گیا جس کے بارے میں بڑے پیمانے پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سیاسی بنیاد پر مبنی تھے۔ 2004 میں ان کی سزا کو ختم کر دیا گیا، اور وہ سیاست میں واپس آئے، اپنی ہی اصلاح پسند جماعت کی قیادت کرتے ہوئے 2013 کے انتخابات میں یو ایم ین او پارٹی کو تقریبا شکست دیتے نظر آئے، پھر ان کے خلاف بدفعلی کے نئے الزامات لگائے گئے، اور انہیں 2015 میں واپس جیل بھیج دیا گیا۔ لیکن جیسے ہی اس وقت کے وزیر اعظم نجیب رزاق کے خلاف ایم ڈی بی ون جیسا بڑا سکینڈل سامنے آیا، مہاتیر ریٹائرمنٹ سے واپس آئے اور انور ابراہیم کے ساتھ مفاہمت کی، اور انہوں نے مل کر 2018 میں حکمران جماعت کو پہلی بار شکست دی، جس کے نتیجے میں مسٹر انور کو بادشاہ کی جانب سے معافی مل گئی۔ ان دونوں کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ مہاتیر محمد، جو پہلے ہی عمر میں 90 کی دہائی میں تھے، وزیر اعظم کا عہدہ انور ابراھیم کو سونپ دیں گے۔ یہ معاہدہ 2020 میں ختم ہوگیا اور اس طرح یہ اعلیٰ ترین عہدہ انکے ہاتھوں سے نکل گیا۔ انور ابراھیم اب اپنی منزل تک پہنچ چکے ہیں لیکن انتہائی مشکل حالات میں، کووڈ کی وجہ سے معیشت تباہی کا شکار ہے اور انہیں اپنے کچھ انتہائی تلخ سیاسی حریفوں کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑے گا۔ انور ابراھیم کی قیادت میں اصلاح پسند پاکتن ہراپن کی حکومت کو غیر مالائی ملائیشیائیوں کی طرف سے کچھ ریلیف ملے گا۔ حریف پیریکاتن نیشنل پر قدامت پسند اسلام پسند پارٹی پی اے ایس کا غلبہ ہے، جس سے غیر ملائی باشندوں کو خدشہ ہے کہ وہ زیادہ مذہبی اور کم روادار قسم کی حکومت پر زور دیگی۔ لیکن نئی حکومت کو درپیش دیگر تمام چیلنجوں کے ساتھ ساتھ ایک تکثیری اور جامع ملائیشیا کو فروغ دینے کے انور ابراھیم کے عزم کو آگے بڑھانا مشکل ہوگا۔
(بشکریہ بی بی سی)