تحریر:وکاس کمار
مایاوتی نے آگرہ سے انتخابی مہم کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں اور میڈیا ہمیں کم تر سمجھ رہی ہے۔ ہم 2007 کی طرح دوبارہ اقتدار میں آ رہے ہیں۔ بی ایس پی کا انتخابی نشان ہاتھی ہے۔ آپ کی (ایس سی؍ ایس ٹی) آبادی ہاتھی کی طرح بڑی ہے۔اس لئے پارٹی کو جتوائیں۔ ایسے میں 3 سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا، ریلی سے کیا پیغام دیا، دوسرا، مایاوتی کے دعوؤں میں کتنی طاقت ہے۔ تیسرا، وہ اس الیکشنشمیں کہاں شکست کھا رہی ہیں۔
یوپی انتخابات میں مایاوتی کی پوزیشن کو سمجھنے سے پہلے آئیے جانتے ہیں کہ انہوں نے آگرہ میں اپنے ووٹروں کو کیا تین بڑے پیغامات دیے؟
1- میں انتخابات میں سرگرم ہوں:
انہوں نے کہا، اپوزیشن جماعتیں اپنے حق میں ہوا بنانے کے لیے میڈیا یا سروے کا غلط استعمال کرتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی لیڈر کہیں نظر نہیں آتیں۔ آئے دن ایسی خبریں میڈیا پر آتی رہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی کوورنا کی وبا کم ہوئی میں دہلی سے لکھنؤ آگئی ۔ میں ایک سال سے لکھنؤ میں ہوں۔
2- پارٹی کو دھوکہ دیا گیا:
سوامی پرساد موریہ کو نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں ہماری پارٹی کے سینئر لیڈر جو دوسری پارٹی میں چلے گئے ہیں۔ انہوں نے دھوکہ دیا۔ زیادہ تر ڈمی امیدوار دوسری پارٹیوں کے رہنماؤں سے ملی بھگت سے بنائے گئے جس کی وجہ سے گزشتہ انتخابات میں پارٹی کو اچھے نتائج نہیں ملے۔ لیکن اس بار ہر امیدوار کو اپنے گھر پر بلا کر خود ملاقات کی اور پھر ٹکٹ فائنل کیا، تاکہ کوئی دھاندلی نہ ہو۔
3- حوصلے کو توڑنے کی کوشش:
مایاوتی نے کہا، پارٹی کارکنوں کے حوصلے کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میں الیکشن میں ہوں لیکن میرے خلاف غلط پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ ایک سال میں میں صرف دو دن کے لیے دہلی گئی تھی۔ جب میری ماں کا انتقال ہو ا۔ میں نے ایک سال میں پولنگ بوتھ کی بنیاد پر کیڈر کو مضبوط کیا ہے۔ نئے لوگ تیار کیے گئے ہیں۔ کسی کے دھوکے میں نہ آئیں۔ ووٹ ڈالے بغیر کھانا بھی مت کھائیں۔
کیا مایاوتی 2007 کی طرح جیت سکتی ہیں؟
اس کا جواب جاننے کے لیے آئیے مایاوتی کے ووٹ کی بنیاد کو سمجھیں۔ 1996 سے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں انہیں اوسطاً 20 فیصد ووٹ ملے۔ 2002 سے 2017 کے اسمبلی انتخابات میں 22 سے 30 فیصد ووٹ ملے تھے۔ یعنی وہ اقتدار میں ہوں یا نہ ہوں، ووٹ 20 فیصد سے کم نہیں تھے۔ 2007 میں جب ان کی حکومت بنی تو انہوں نے سب سے زیادہ 30 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ سال 2017 میں سب سے کم۔ 19 سیٹوں پر جیت حاصل کیں، لیکن 22 فیصد ووٹ ملے۔ جاٹو کے علاوہ کچھ غیر جاٹو، مسلم اور برہمن ووٹر بھی ان فیصد میں شامل ہیں۔ لیکن اس بار مایاوتی کی پوزیشن ایسی نظر نہیں آ رہی ہے۔
اس الیکشن میں مایاوتی کے کم سرگرم ہونے کی تشہیر کی گئی۔ کہا گیا کہ وہ بی جے پی کی بی ٹیم ہے۔ الیکشن کے بعد ان کی حمایت کریں گی۔ ایسے میں مسلم ووٹر بی ایس پی سے دور ہو سکتے ہیں۔ باہر کا ووٹر کنفیوژن کا شکار ہے۔ یوگی پر برہمن مخالف حکومت ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ لیکن وہ (برہمن) بھی اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں۔ کانگریس بھی کچھ جگہوں پر متبادل کے طور پر ابھری ہے۔ ایسے میں ایسا لگتا ہے کہ برہمن ووٹر تقسیم ہو سکتے ہیں۔ اس کا اثر بی ایس پی کے ووٹ پر بھی پڑے گا۔
غیر جاٹو کی بات کریں تو چندر شیکھر آزاد نے مایاوتی کے خلا کو کچھ حد تک پُر کرنے کا کام کیا ہے۔پچھلے چند سالوں پر نظر ڈالیں تو چندر شیکھر آزاد دلت مسائل پر مایاوتی سے زیادہ لڑتے نظر آئے۔ ایسے میں جاٹو کو چھوڑ کر باقی ووٹر بکھر سکتے ہیں۔ 2019 کے انتخابات میں مایاوتی کو سب سے کم 19.3 فیصد ووٹ ملے تھے۔
سینئر صحافی رام دت ترپاٹھی کہتے ہیں، مایاوتی نے آگرہ سے انتخابی ریلی کا آغاز کیا۔ وہاں ان کی برادری کے ووٹ ہیں۔ وہاں چمڑے کا کام کیا جاتا ہے۔ مایاوتی ان سیٹوں پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں جہاں ان کا ووٹ بیس ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ تیسری قوت منتشر نہ ہو، اس لیے وہ پورے یوپی میں گھومنے کے بجائے وہاں جا رہی ہیں جہاں جیتنے کی زیادہ گنجائش ہے۔ مایاوتی کو یقین ہے کہ ان کی برادری کوئی بھی ہو، وہ ساتھ رہیں گی۔ باقی چند ووٹ امیدوار لائے گا، لیکن بہت زیادہ توقع نہ رکھتیں۔
مایاوتی ادراک کی وجہ سے پیچھے ہیں
مایاوتی کوبھی اس بات کا احساس ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی 35 منٹ کی تقریر میں انہوں نے کئی بار الیکشن سے غائب رہنے کے تصوڑ کو توڑنے کی کوشش کیں۔ یہ سچ ہے کہ انتخابات میں مایاوتی بی جے پی اور ایس پی کے بڑے لیڈروں کی طرح ٹی وی اسکرین پر نہیں ہیں۔ اخبار کی سرخیوں سے غائب ہیں، لیکن ایک سچائی یہ بھی ہے کہ مایاوتی کا الیکشن لڑنے کا انداز بھی ایسا ہی ہے۔ ان کا بنیادی ووٹر ہر بار خاموش رہا ہے۔ جب انتخابات قریب ہوتے ہیں تو وہ اپنے کارڈ کھولتے ہیں۔ مایاوتی کا بنیادی ووٹر ان کے ساتھ ہے، لیکن باقی ووٹر ان کے خلاف بیانیے سے بچ سکتے ہیں۔ پچھلی بار مسلم ووٹر تقسیم ہوا تھا۔ لیکن اس بار یہ پیغام گیا ہے کہ صرف ایس پی ہی بی جے پی کو ہرا سکتی ہے، ایسے میں مسلم ووٹر کٹ سکتا ہے۔
مایاوتی نے 2007 کی جیت کا حوالہ دیا۔ کہا جیت انہی کی ہو گی۔ لیکن اس وقت صورت حال مختلف تھی۔ ملائم سنگھ کے خلاف لہر تھی۔ لوگوں کے پاس بی ایس پی کے علاوہ بی جے پی اور کانگریس کا آپشن نہیں تھا۔ تب یہ تاثر پیدا ہوا کہ صرف بی ایس پی ہی ایس پی کو ہرا سکتی ہے۔ اسی لیے لوگوں نے باقی دو پارٹیوں پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ اب یہی تصور ایس پی اور بی جے پی کے بارے میں ہے۔ پورے الیکشن میں ایسا نہیں لگا کہ مایاوتی حکومت بنانے کے لیے لڑ رہی ہیں۔
(بشکریہ: دی کوئنٹ ہندی)