نئی دہلی :(ایجنسی)
میاں بیوی اور سسرال کے معاملہ میں دہلی ہائی کورٹ نے ایک اہم تبصرہ کیا ہے ۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ گھریلو تشدد ایکٹ کے تحت خاتون کو سسر کے گھر میں رہنے کا حق ہے ، بھلے ہی وہ ازدواجی حقوق کی بحالی کیلئے داخل شوہر کی عرضی کی مخالفت کررہی ہے ۔ ایک معاملہ کی سماعت کے دوران دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ سسرال میں رہائش پانے کا حق ہندو میریج ایکٹ کے تحت ملنے والے کسی بھی اختیار سے الگ ہے ۔ اسی کے ساتھ ہائی کورٹ نے خاتون کے ساس و سسر کی اس دلیل کو خارج کردیا ، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جب بہو ان کے بیٹے کے ساتھ رہنے کیلئے تیار نہیں ہے تو اس کو مکان میں رہنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے ۔
جسٹس چندر دھاری سنگھ نے نچلی عدالت کے فیصلہ کے خلاف جوڑے کی عرضی خارج کردی ۔ جوڑے نے عرضی میں نچلی عدالت کے گھریلو تشدد ایکٹ کے تحت خاتون کو سسرال کے گھر میں رہنے کا حق دئے جانے کے حکم کو چیلنج کیا تھا ۔ دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ گھریلو تشدد ایکٹ 2005 کے تحت رہائش کا حق ، ہندو میریج ایکٹ 1995 کی دفعہ 9 کے تحت پیدا ہونے کسی بھی حق سے الگ ہے ۔
عرضی گزار نے بتایا تھا کہ بہو نے تنازع کے بعد ستمبر 2011 میں اپنا سسرال چھوڑ دیا تھا ۔ عرضی گزار نے کہا تھا کہ دونوں فریقوں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف 60 سے زیادہ دیوانی مقدمات دائر کئے گئے ہیں ۔ ان میں سے ایک معاملہ خاتون نے گھریلو تشدد ایکٹ 2005 کے تحت دائر کیا تھا اور کارروائی کے دوران خاتون نے متعلقہ جائیداد میں رہائش کے حق کا دعوی کیا تھا ۔
معاملہ میں نچلی عدالت نے خاتون کے مطالبہ کو منظور کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مکان کی پہلی منزل پر رہنے کی حقدار ہے ۔ اس حکم کو سیشن کورٹ نے بھی صحیح ٹھہریا ۔ اس کے خلاف ساس و سسر دہلی ہائی کورٹ چلے گئے ، جہاں انہوں نے کہا کہ بہو نے ساتھ رہنے سے انکار کردیا ہے اور ازدواجی حقوق کی بحالی کیلئے داخل عرضی کی مخالفت کی ہے ۔ جب وہ ان کے بیٹے کے ساتھ رہنے کیلئے تیار نہیں ہے تو اس کو مکان میں بھی رہنے کا حق نہیں ہے ۔ ہائی کورٹ نے ان دلیلوں کو خارج کردیا ۔