نئی دہلی: لوک سبھا الیکشن 2024 کے تحت دہلی میں 25 مئی کو ووٹنگ ہونی ہے۔ دہلی میں انڈیا الائنس اور بی جے پی کے درمیان سیدھا مقابلہ ہے۔ انڈیا الائنس کے تحت عام آدمی پارٹی نے چار سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں جبکہ کانگریس نے تین سیٹوں پر ۔ 2019 میں بی جے پی نے دہلی کی تمام سات سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن اس بار مقابلہ پہلے کے مقابلے بہت دلچسپ بتایا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی تعداد ان تمام سیٹوں پر مسلم ووٹروں کی مانی جاتی ہے۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اس بار دہلی کی تمام سیٹوں پر مسلم ووٹر گیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں جس پارٹی کے امیدوار کو مسلم کمیونٹی سے زیادہ ووٹ ملیں گے، اس کے جیتنے کے امکانات یقیناً دوسرے کے مقابلے میں قدرے زیادہ ہوں گے۔
*شمال مشرقی دہلی کی سیٹ
یہ سیٹ سال 2002 میں تشکیل کردہ حد بندی کمیشن آف انڈیا کی سفارش کے بعد سال 2008 میں وجود میں آئی تھی۔ 2009 میں اس سیٹ پر پہلی بار لوک سبھا کے انتخابات کے لیے ووٹنگ ہوئی تھی۔ اس لوک سبھا سیٹ کے تحت سیلم پور، براری، گھونڈا، سیما پوری، گوکل پوری، بابر پور، کراول نگر، روہتاس نگر سمیت کل 10 اسمبلی حلقے آتے ہیں۔ اگر ہم مسلم ووٹروں کی بات کریں تو دہلی میں اس لوک سبھا سیٹ کے تحت سب سے زیادہ مسلم ووٹروں کی تعداد ہے۔ اس سیٹ پر مسلم ووٹروں کی کل فیصد 20.7 فیصد اس سیٹ پر الائنس نے کنہیا کمار کو اپنا امیدوار بنایا ہے جبکہ بی جے پی نے اس سیٹ سے منوج تیواری کو اپنا امیدوار بنایا ہےیہاں پوروانچل ووٹرز کی تعداد بھی اہم ہے۔
*مشرقی دہلی سیٹ پر امیدواروں کی قسمت مسلم ووٹروں کے ہاتھ
مشرقی دہلی مسلم آبادی کے لحاظ سے دوسری سب سے بڑی لوک سبھا سیٹ ہے۔ یہاں مسلم ووٹروں کی تعداد 16.8 فیصد ہے۔ یعنی اگر اتنے ووٹروں نے ایک امیدوار کے حق میں ووٹ دیا تو اس کی جیت کے امکانات کافی بڑھ جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے علاوہ اس سیٹ پر زیادہ تر ووٹرز سکھ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سیٹ میں کونڈلی، پٹ پڑ گنج، کرشنا نگر، لکشمی نگر، سبھاش نگر، گاندھی نگر، اوکھلا سمیت 10 اسمبلی حلقے شامل ہیں، جہاں بڑی تعداد میں مہاجرین بھی رہتے ہیں۔AAP نے کلدیپ کمار کو اس لوک سبھا سیٹ سے انڈیا الائنس کی جانب سے میدان میں اتارا ہے۔ ساتھ ہی بی جے پی نے اس سیٹ سے ہرش ملہوترا کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔
*نئی دہلی سیٹ پرسخت مقابلہ
اس بار نئی دہلی لوک سبھا سیٹ پر عام آدمی پارٹی کے امیدوار سومناتھ بھارتی اور بی جے پی کی بانسری سوراج میدان میں ہیں۔ اگر اس نشست کی تاریخ کی بات کی جائے تو یہ حلقہ 1951 میں وجود میں آیا تھا۔ 2008 میں پارلیمانی حلقوں کی حد بندی کے بعد سے، یہ خطہ دہلی کی 10 اسمبلی سیٹوں پر مشتمل ہے۔ ان میں قرول باغ، پٹیل نگر، موتی نگر، دہلی کینٹ، راجندر نگر، نئی دہلی، کستوربا نگر، مالویہ نگر، آر کے پورم، اور گریٹر کیلاش شامل ہیں۔ اگر اس سیٹ پر مسلم ووٹروں کی بات کریں تو ان کا کل فیصد 16.8 فیصد ہے۔
*چاندنی چوک لوک سبھا سیٹ
اس بار چاندنی چوک لوک سبھا سیٹ پر کانگریس کے جئے پرکاش اگروال اور بی جے پی کے پروین کھنڈیلوال کے درمیان اہم مقابلہ ہے۔ اگر ہم اس سیٹ پر مسلم ووٹروں کی بات کریں تو یہاں ان کی تعداد 14 فیصد ہے۔ یہ نشست 1956 میں وجود میں آئی۔ اور اس نشست پر پہلی بار 1957 میں انتخابات ہوئے۔
آدرش نگر، شالیمار باغ، شکوربستی، تری نگر، وزیر پور، ماڈل ٹاؤن، صدر بازار، چاندنی چوک، مٹیا محل، بالی ماران جیسی اسمبلی سیٹیں اس سیٹ کے تحت آتی ہیں۔
*شمال مغربی دہلی لوک سبھا سیٹ
۔شمال مغربی دہلی مسلم ووٹروں کی تعدادکے لحاظ سے بھی بہت خاص ہے۔ یہاں کل ووٹروں کے مقابلے مسلم ووٹروں کی تعداد 10.6 فیصد ہے۔ شمال مغربی دہلی دہلی کی تمام لوک سبھا سیٹوں میں سب سے بڑی لوک سبھا سیٹ ہے۔ اس سیٹ کے تحت 10 اسمبلی سیٹیں ہیں جن میں نریلا، بدلی، رتنہ، بوانا، منڈکا، ناگلوئی اور سلطان پوری شامل ہیں۔ 2019 میں بی جے پی کے ہنس راج ہنس نے یہ سیٹ جیتی تھی۔
٭جنوبی دہلی آپ بمقابلہ بی جے پی
اس بار جنوبی دہلی کی لوک سبھا سیٹ پر مقابلہ عام آدمی پارٹی کے امیدوار سہیرام پہلوان اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رامویر سنگھ بیدھوری کے درمیان ہے۔ 2019 میں اس سیٹ سے بی جے پی کے رمیش بدھوری ایم پی منتخب ہوئے تھے۔ اگر اس سیٹ پر مسلم ووٹروں کی تعداد کی بات کریں تو یہ سات فیصد ہے۔مغربی دہلی کی لوک سبھا سیٹ پر بھی سب کی نظریں ہیں۔اس بار بی جے پی نے مغربی لوک سبھا سیٹ کے لیے بھی ایک نیا امیدوار کھڑا کیا ہے۔ پچھلی بار یعنی 2019 میں، بی جے پی نے اس سیٹ سے پرویش ورما کو میدان میں اتارا تھا، لیکن اس بار بی جے پی نے ان کی جگہ جنوبی دہلی کے سابق میئر کمل جیت سہراوت کو موقع دیا ہے۔ ان کے سامنے عام آدمی پارٹی سے مہابل مشرا ہوں گے۔ اگر ہم مسلم ووٹروں کی بات کریں تو اس سیٹ پر مسلم ووٹروں کی کل فیصد 6.8 فیصد ہے۔