تحریر:وسعت اللہ خان
اسرائیلی پی ایم نیتن یاہو پرانے کھلاڑی ہیں۔ وہ 1980 کے عشرے سے اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کا فعال حصہ ہیں۔ اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی مندوب، وزیرِ خزانہ، وزیرِ خارجہ، وزیر دفاع اور قائدِ حزبِ اختلاف کے عہدوں کے تجربات سے مالا مال ہیں۔ لہٰذا انھیں اندرونی و بیرونی بساط پر کھیلنے کا بخوبی تجربہ ہے۔ وہ بین الاقوامی رائے عامہ کو منقسم رکھنے اور اسرائیل پر سے منفی عالمی توجہ ہٹانے کے ماہر ہیں۔
مثلاً اس سال 26 جنوری کو جب عالمی عدالتِ انصاف نے جنوبی افریقہ کی پٹیشن پر غزہ میں انسانی امداد کی بحالی اور سویلین آبادی کو محفوظ رکھنے کے لیے اسرائیل کو مؤثر فوری اقدامات کرنے اور طاقت کے استعمال کو حد میں رکھنے کا پابند کرنے کی کوشش کی تو فیصلے کے کچھ دیر بعد اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے ممکنہ عالمی ردِعمل کی پیش بندی کے طور پر یہ رپورٹ جاری کر دی کہ اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے برائے فلسطین (انرا) کے کم از کم بارہ ارکان سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر ہونے والے حملوں میں براہِ راست ملوث ہیں۔
میڈیا اور مغربی حکومتوں کی توجہ چند ہی گھنٹے میں عالمی عدالتِ انصاف کی رولنگ سے ہٹ کر اسرائیلی الزامات پر مرکوز ہو گئی اور متعدد ممالک بشمول یورپی یونین نے انرا کی امداد عارضی طور پر معطل کر دی۔
دباؤ اتنا بڑھا کہ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بھی فوری طور پر ان اہلکاروں کی معطلی اور چھان بین کے احکامات جاری کرنے پڑے۔ آج لگ بھگ ڈھائی ماہ بعد بھی ان الزامات کے حق میں ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آ سکے۔ چنانچہ کئی ممالک نے انرا کی معطل امداد بحال کر دی ہے۔
دوسرا توجہ ہٹاؤ واقعہ یکم اپریل کو پیش آیا جب غزہ میں فلسطینیوں کو غذا فراہم کرنے والے سات بین الاقوامی رضاکار ایک فضائی کاروائی میں ہلاک ہو گئے۔ اسرائیل کے قریبی اتحادی ممالک نے بھی اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے چھان بین کا مطالبہ کر دیا۔
واردات کے چند گھنٹے بعد اسرائیلی فضائیہ نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے کو نشانہ بنایا اس حملے میں ایرانی پاسداران کی القدس فورس کے دو اعلیٰ عہدیداروں سمیت آٹھ ہلاکتیں ہوئیں۔ یوں غزہ میں سات بین الاقوامی امدادی رضاکاروں کی موت سے وقتی طور پر توجہ ہٹانے کی کوشش کی گئی۔
جب سے غزہ آپریشن شروع ہوا ہے۔ اسرائیل کی شمالی سرحد پر ایران نواز حزب اللہ سے جھڑپیں اور دور جنوب میں یمن کی حوثی انتظامیہ کی جانب سے آبنائے عدن کی ناکہ بندی غزہ کی مہم کے ثانوی نتیجے کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ مگر غزہ پر مسلسل عالمی دھیان اور جنگ بندی کے لیے بڑھتے دباؤ کو بقول شخصے ’ڈیفلیکٹ‘ کرنے کا ایک مجرب طریقہ یہ بھی ہے کہ بحران کا دائرہ بڑھانے کی کوشش ہو تاکہ زیادہ ممالک ملوث ہوں تو بوجھ بٹ جائے۔
دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ بھی مشرقِ وسطیٰ پر نظر رکھنے والے کچھ مبصرین کے مطابق ایک ٹریپ تھا۔ بین الاقوامی سفارتی کنونشنز کے مطابق کسی بھی ملک کا سفارتخانہ اس ملک کا خود مختار علاقہ تصور ہوتا ہے۔ لہٰذا عام طور پر سفارت خانوں کو دورانِ جنگ بھی نشانہ بنانے سے پرہیز کیا جاتا ہے۔
شام میں ایرانی فوجی تنصیبات اور اہلکار سات اکتوبر کے بعد سے بالخصوص متعدد بار اسرائیلی حملوں کا ہدف بنے ہیں۔ مگر سفارتی دفتر پر حملے کے بعد ایران کو یہ سوچنا تھا کہ اس کی بدستور خاموشی کو اندرون و بیرونِ ملک ریاست کی کمزوری پر محمول کیا جا سکتا ہے اور مشرقِ وسطی میں جو چند اتحادی ہیں ان کا ایرانی سیاسی و عسکری حمایت پر سے اعتماد متزلزل ہو سکتا ہے۔
ایران نے جواب دینے کا راستہ چنا۔ حالانکہ اس فوجی جواب میں کوئی ایسا اچانک پن (سرپرائز) نہیں تھا جو کسی بھی مؤثر عسکری آپریشن کا بنیادی محور ہوتا ہے۔ لگ بھگ ڈھائی ہزار کلو میٹر جغرافیائی فاصلے کی مجبوری میں ہر کسی کو معلوم تھا کہ ایران کی جو بھی کارروائی ہو گی وہ اندرونِ ملک قومی وقار اور بیرونِ ملک اتحادیوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ایک علامتی کارروائی ہو گی۔
البتہ ایرانی جواب سے اسرائیل کو یہ فوری فائدہ ضرور ہوا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے سلسلے میں اتحادیوں سمیت جو بین الاقوامی دباؤ رفتہ رفتہ بڑھ رہا تھا۔ اس سے وقتی طور پر مکتی مل گئی۔ اگر ایرانی علامتی کارروائی کا کوئی ٹھوس اسرائیلی یا اتحادی جواب الجواب ہوا تو پھر میڈیا اور باقی دنیا کا سارا فوکس غزہ سے ہٹ کے ایک بڑے ممکنہ بحران پر مرکوز ہو جائے گا۔ یوں اسرائیل کو غزہ اور غربِ اردن میں اپنے حتمی مقاصد کے تیز تر حصول کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔
ایسے وقت میں جب ایک جانب دنیا کو روس یوکرین مناقشے کی صورت میں اقتصادی جھٹکے لگ رہے ہیں
صدر بائیڈن کو غیر یقینی صدارتی الیکشن درپیش ہے۔ خلیجی ریاستوں کو اپنے اقتصادی، علاقائی اور سٹریٹیجک مستقبل کی فکر لاحق ہے۔ کیا مغرب دونوں آنکھیں بند کر کے نیتن یاہو کی ہر خواہش پوری کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے؟