نئی دہلی (تنوشری پانڈے کی خاص رپورٹ)
اترپردیش کے چوڑی بیچنے والے تسلیم علی کو اندور کے بان گنگا علاقے میں گربچی سے چھیڑ خوانی کے الزام میں بھیڑ کے ذریعہ پٹائی اور مبینہ طور پر علی کے مذہب کی وجہ سےنشانہ بنانے کے بعد گرفتاری کے 84 دن گزر چکے ہیں اور پانچ بار عدالت میں تاریخیں پڑ چکی ہیں۔ اسے پیٹنے کے ملزم جہاں ضمانت پر باہر ہیں ، وہیں علی کی ضمانت پر مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں سماعت تک نہیں ہو سکی ہے ۔
علی کی ضمانت کی درخواست ریاست کی ایک ضلع عدالت نے یکم ستمبر کو مسترد کر دی تھی، جس کے بعد اس نے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ وہاں پانچ تاریخیں ہونے کے بعد بھی اس کی شنوائی ہونی باقی ہے۔ آخری تاریخ 9 نومبر تھی لیکن اس معاملے کی سماعت نہیں ہوئی جس کے بعد جج نے خود کو کیس سے الگ کر لیا۔ 4 اور 28 اکتوبر کے درمیان آخری چار تاریخوں کے دوران کیس ڈائریوں کی عدم دستیابی جیسے طریقہ کار میں تاخیر کی وجہ سے کیس کو ملتوی کر دیا گیا تھا۔
کسی بھی معاملے کی کیس ڈائری پولیس افسران تیار کرتے ہیں، جس میں تمام تفصیلات ہوتی ہیں کہ تفتیش کیسے کی گئی، جیسے کہ تفتیش کس تاریخ کو شروع ہوئی، تفتیش کے ایک حصے کے طور پر کن مقامات کا دورہ کیاگیا وغیرہ۔ کیس ڈائری عدالت کے لیے کسی معاملے کی جانچ یا کارروائی کے بارے میں جاننے کا ایک ذریعہ ہے ،حالانکہ یہ ثبوت کے طور پر ناقابل قبول ہے ۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں علی کی ضمانت پر سماعت کی تاریخیں طریقہ کار میں تاخیر کے جال میں پھنس گئی ہیں۔ 4 اکتوبر کو پہلی تاریخ کو پراسیکیوٹر نے سماعت ملتوی کرنے کی مانگ کی جسے منظور کرلیا گیا۔ چار دن بعد معاملہ کو پھر سے ملتوی کر دیا گیا کیونکہ استغاثہ فریق کاکہنا تھا کہ کیس ڈائری دستیاب نہیں ہے۔ تیسری تاریخ، 25 اکتوبر کو، سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس بار کاؤنٹر کیس ڈائری دستیاب نہیں ہے۔ 28 اکتوبر (چوتھی تاریخ) کو بنچ معاملے کی سماعت نہیں کر سکی۔ اس ہفتے کی شروعات میں جج کی جانب سے کیس سے الگ ہونے کے بعد سماعت ملتوی کر دی گئی تھی۔
تاخیر کے بارے میں پوچھے جانے پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پشیامترا بھارگونے استغاثہ کی طرف سے کسی تاخیر سے انکار کیا۔انہوں نے کہاکہ یقینی طور پر ہماری جانب سے کوئی تاخیر نہیں کی گئی ہے۔ ہم نے پولیس کو بتا دیاہے کہ انہوں نے کیس ڈائری وقت پر نہیں دی، جب بھی ہمیں معاملہ کورٹ میں لسٹڈ ہونے کی جانکاری ملتی ہے ہم اس کی ایک کاپی پولیس کو بھیجتےہیں ۔
انہوں نے کہا کہکیس ڈائری انہی کے نگرانی میں رہتی ہے اوریہ معمول کی بات ہے کیونکہ پولیس سے کیس ڈائری حاصل کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن ہم ہمیشہ سماعت سے پہلے طریقہ کار سے آگاہ کرتےہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ سماعت کی تاریخوں پر کیس ڈائری دستیاب نہیں ہونے کی وجہ کیاتھی۔
ساتھ ہی مدھیہ پردیش پولیس نے بھی تاخیر کی تردید کی۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ اندور (مشرقی) آشوتوش باگری نے کہاکہ پولیس کی طرف سے کوئی تاخیر نہیں ہوئی ہے۔ ہم خود تو کیس ڈائری نہیں دیں گے۔ جب جب اس کے لیے ہم سے کہا گیا ، ہم نے اسے استغاثہ کو دستیاب کرایا ہے ۔
آئی جی اندور ہری نارائن چاری مشرا نے بھی دی پرنٹ کو بتایاکہ پولیس کی طرف سے تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔کیس ڈائری ہم جب سیشن کورٹ میں دے دیتے تو ہائی کورٹ میں دینے میں کیاحرج ہے لیکن تاخیر کی وجہ کیا ہے ،یہ جاننے کے لیے مجھے سرکار ی وکیل سے بات کرنی ہوگی۔
علی پر حملے کے چار ملزمان میں سے ایک راکیش پوار کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے 23 ستمبر کو پہلی سماعت کے دوران ضمانت دی تھی، جبکہ ضلع عدالت نے ان کی ضمانت کی درخواست کی تھی۔ حکم کی بنیاد یہ تھی کہ عدالتی کارروائی میں ’کافی‘ وقت لگ سکتا ہے۔
تین دن بعد، دیگر ملزمین- وویک ویاس، راجکمار بھٹناگر اور وکاس مالویہ کو ـضلع عدات نے ان کے وکیل کی جانب سے دائر ایک ہی عرضی پر ضمانت دے دی ، جس میں ملزمین میں سے ایک کو ہائی کورٹ سے ضمانت مل جانے اور معاملے میں جانچ پوری ہو جانے کو بنیاد بنایا گیا تھا۔ ساتھ ہی کہا گیا تھا کہ زیادہ تر ملزم ضمانتی ہیں ، اس لئے انہیں حراست میںرکھے جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے
دی پرنٹ کوملے ضمانت کے حکم کے مطابق دفاعی فریق نے دلیل دی تھی کہ ملزم ’ اشرافیہ گھرانے ‘ سے تعلق رکھتے ہیں اورانہیں حراست میں رکھنے سے ان کا ذہنی توازن متاثرہو گا ۔
علی کے وکیل احتشام ہاشمی نے کہا کہ قانون کے مطابق ضمانت ایک حق ہے اور کیس میں کوئی ثبوت بھی نہیں ہے۔
ہاشمی نے کہاکہ ‘( نابالغ) لڑکی جو کہہ رہی ہے، اس کاکوئی ایک تو ثبوت ہونا چاہئےتھا۔ دوسری جانب ہمارے پاس ثبوت ہیں کہ تسلیم نے کسی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی اور نہ ہی کسی کو پریشان کیا بلکہ اپنے مذہب کی وجہ سے عوامی طور سے حملہ جھیلا۔ اس کے خلاف پاکسو ایکٹ کے تحت الزم بعدمیں اسے سبق سکھانے کے مقصد سے لگائے گئے کیونکہ اس نے ایف آئی آر درج کرادی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘اگر ہم لڑکی کی ایف آئی آر کی بھی بات کریں تو تسلیم نے اس کے ہاتھ اور گال کو چھوا، کسی پرائیویٹ پارٹ کو نہیں بلکہ میرے موکل کو کھلے عام مارا پیٹا گیا، لوٹ مار کی گئی اور اجتماعی گالیاں دی گئیں۔ اگر اس کے مجرموں کو ضمانت مل سکتی ہے تو اسے بھی ملنی چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے لیکن ‘کچھ چل رہا ہے جس کی وجہ سے ضمانتیں پھنس رہی ہیں لیکن سمجھ نہیں آرہی۔ انہوں نے کہا کہ جب کسی شخص کے خلاف کوئی ’’مضبوط ثبوت‘‘ نہ ہو تب بھی اسے جیل میں رکھنے کی کوئی ’’منطقی وجہ‘‘ نہیں ہے۔
ہاشمی نے کہا کہ ‘کیس ڈائری دینا چند گھنٹوں کا کام ہے لیکن یہ سماعت کی دو تاریخوں پر دستیاب نہیں تھی جس کی وجہ سے ضمانت میں ہفتوں سے تاخیر ہو رہی ہے۔ سرکاری وکیل اور پولیس آپس میں مل کر کام کرتے ہیں، اس کے باوجود ایسی غیر ضروری اور بے وجہ کی تاخیر ہوتی رہی۔ یہ سب ضمانت میں تاخیر کی چالیں ہیں۔
علی کی بیوی اور پانچ بچے، جن میں سب سے چھوٹا دو سال کا ہے، یوپی کے ہردوئی ضلع کے برج ماؤ گاؤں میں رہتے ہیں۔ اپنے پریوار میں کمانے والے واحد فرد کے جیل جانے سے ان کے لیے تو کھانے کے بطی لالے پڑ گئے ہیں ۔ان کی 22 سالہ بیوی نیتا نے روتے ہوئے پوچھا، ‘کیا ہمیں مسلمان ہونے کی سزا مل رہی ہے؟
نیتا نے دی پرنٹ کو بتایا کہ تسلیم تین بیٹیوں اور دو بیٹوں کا باپ ہے۔ وہ ہزاروں خواتین کو چوڑیاں بیچی ہے۔ آپ خود دیکھ لیں، ان کے خلاف کبھی کسی کے ساتھ غیر مناسب رویہ کی کوئی شکایت نہیں آئی ہے، وہ بس نفرت کا شکار ہو گیا جس کا ہم مسلمانوںکو ہر دن سامنا کر نا پڑتا ہے ۔ کیا ہمارا مذہب ہماری غلطی ہے ۔؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘کیا بھوک سے تڑپ رہے اس دو سال کے بچے کا یہی قصور ہے کہ اس کےوالد ایک مسلمان ہے؟