نئی دہلی:
دو خاتون صحافیوں نے ریاست سے بغاوت کے قانون کی آئینی جواز کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے اور کہاہے کہ نوآبادیاتی دور کی تعزیراتی دفعہ کا استعمال صحافیوں کو ڈرانے، خاموش کرانے اور سزا دینے کے لیے کیا جا رہاہے
۔
’دی شیلا نگ ٹائمز‘ کی ایڈیٹر پیٹریسیا مکھم اور’ ‘کشمیر ٹائمز‘ کی مالک انورادھا بھسین نے کہا کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 124-A (ریاست سے بغاوت) آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کے حقوق کو ’پریشان کرنے کے ساتھ ہی رکاوٹ ڈالنا ‘ جاری رکھے گی ۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ بغاوت کے جرم کی سزا کے لیے عمر قید سے لے کر عام جرمانہ تک کی جو تین زمرے بیان کئے گئے ہیں وہ ججوںکو غیر محدود مراعات فراہم کرنے جیسا ہے کیونکہ اس سزا کے لیے کوئی رہنما ہدایت نہیں ہے ۔ اس لئے یہ آئین میں شامل مساوات کے حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے اور من مانا ہے ۔
اس سے قبل ایک این جی او نے 16 جولائی کو اسی طرح کی درخواست دائر کرکے ریاست سے بغاوت کا قانون کی آئینی جواز کو اس بنیاد پر چیلنج کیا تھا کہ یہ ’ غیر اخلاقی‘ ہے اور بھارت جیسے آزاد جمہوری ملک میں اپنی تمام تر حیثیت کھوچکا ہے ۔
پیپلز یونین فار سوسل لیبرٹیز ( پی یو سی ایل ) کی طرف سے دائر عرضی میں کہا گیا ہے کہ بغاوت ایک سیاسی جرم تھا،جسے اصل میں برطانوی استعمار کے دوران سیاسی بغاوت کو روکنے کے لیے لاگو کیا گیا تھا۔ اس نے کہاکہ اس طرح کے’جابرانہ‘رجحانات والے قانون کا آزاد بھارت میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ سابق مرکزی وزیر ارون شوری نے بھی قانون کے خلاف گزشتہ ہفتے عدالت عظمیٰ کا رخ کیا تھا۔