نئی دہلی:کیجریوال کیس پر جرمنی کے ردعمل اور بھارت میں مظاہروں کے آغاز کے بعد امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ بھارتی اپوزیشن لیڈر اروند کیجریوال کی گرفتاری کی رپورٹس پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور منصفانہ قانونی عمل کی حمایت کرتا ہے۔ اپوزیشن لیڈر اور دارالحکومت دہلی کے وزیر اعلی کیجریوال کو مرکزی تحقیقاتی ایجنسی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے گزشتہ جمعرات کو عام انتخابات کے اعلان کے بعد بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔ ان کی عام آدمی پارٹی کیجریوال کے خلاف الزامات کو مسترد کرتی رہی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے رپورٹ کیا کہ ایک امریکی ترجمان نے کیس کے بارے میں ای میل کیے گئے سوال کے جواب میں کہا، ’’ہم وزیر اعلیٰ کیجریوال کے معاملے میں ایک منصفانہ، شفاف اور بروقت قانونی عمل کے منتظر ہیں۔‘‘ امریکی بیان سے قبل جب گزشتہ جمعے کو ایک پریس کانفرنس میں گرفتاری کے بارے میں پوچھا گیا تو جرمن دفتر خارجہ کے ترجمان سیباسٹین فشر نے کہا تھا کہ الزامات کا سامنا کرنے والے دیگر افراد کی طرح کیجریوال بھی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ٹرائل کے حقدار ہیں۔ جرمنی کے ترجمان نے کہا تھا کہ ’’ہمیں یقین ہے اور امید ہے کہ اس معاملے میں عدلیہ کی آزادی اور بنیادی جمہوری اصولوں سے متعلق معیارات بھی لاگو ہوں گے۔‘‘
جرمنی کے اس بیان پر ہندوستانی وزارت خارجہ برہم ہوگئی۔ ہندوستان کی وزارت خارجہ نے ہفتے کے روز جرمن سفارت خانے کے ڈپٹی چیف آف مشن جارج اینزویلر کو طلب کیا اور ان کے ریمارکس پر ہندوستان کے شدید احتجاج سے آگاہ کیا۔ ہندوستان نے ایک بیان میں کہا: "ہم اس طرح کے تبصروں کو ہمارے عدالتی عمل میں مداخلت اور ہماری عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں کیے گئے متعصبانہ مفروضے انتہائی نامناسب ہیں۔”
جرمنی کے ساتھ ہندوستان کی مخالفت کے بارے میں پوچھے جانے پر، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا، "ہم ہندوستانی حکومت کے ساتھ ان کی بات چیت پر تبصرہ کرنے کے لیے آپ کو جرمن وزارت خارجہ سے رجوع کرنے کو کہیں گے۔”
واشنگٹن دنیا بھر میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کی کوششوں میں ہندوستان کو ایک اہم اسٹریٹجک اور اقتصادی شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اکثر انسانی حقوق کی تنقید کے لیے خود کو حساس ظاہر کرتی رہی ہے، اور حقوق کے علمبرداروں نے امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ پر الزام لگایا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے معاملات میں اس طرح کے مسائل سے بالاتر ہو کر اسٹریٹجک تحفظات کو ترجیح دیتی ہے۔
تاہم نئی دہلی اور برلن کے درمیان بھی اچھے تعلقات ہیں اور دونوں ممالک دفاعی ٹیکنالوجی سمیت اسٹریٹجک معاملات پر قریب آرہے ہیں۔ لیکن جرمنی انسانی حقوق کے معاملے پر خاموش نہیں رہتا۔ واشنگٹن میں ہندوستانی سفارت خانے نے محکمہ خارجہ کے ردعمل پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق، بھارتی حکومت اور مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کیجریوال اور ان کی عام آدمی پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے معاملے میں کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت کی تردید کرتی ہے۔