نئی دہلی :(ایجنسی)
یوپی کے اے ڈی جی پی پرشانت کمار کہہ رہے ہیں کہ کچھ معمولی واقعات ہوئے ہیں۔ بلیا میں بس، ایک ٹرین کو جلا دیا گیا ہے۔ لیکن اے ڈی جی پی علی گڑھ، وارانسی، متھرا کے واقعات سے بے خبر ہو سکتے ہیں یا انہیں ان کے ماتحت افسران نے یہ نہیں بتایا ہو گا کہ ریاست میں کیا ہوا ہے۔
اے ڈی جی پی کو شاید یہ اطلاع نہیں دی گئی تھی کہ علی گڑھ کے جٹاری قصبے میں ایک پولیس چوکی کو آگ لگا دی گئی ۔ انہیں شاید یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ علی گڑھ-پلول (ہریانہ) روٹ پر علی گڑھ ضلع میں یوپی روڈ ویز کی بس کو جلا دیا گیا تھا۔ علی گڑھ میں مشتعل افراد نے بی جے پی لیڈر راج پال سنگھ کی گاڑی کو جلا کر راکھ کر دیا۔
اے ڈی جی پی پرشانت کمار کو شاید اس بات کی اطلاع نہیں تھی کہ نوجوانوں نے متھرا میں قومی شاہراہ کو بلاک کر دیا ہے۔ انہوں نے بھرت پور روڈ پر ہریانہ روڈ ویز کی بس کو جلا دیا۔ پولیس کو مشتعل افراد کو قومی شاہراہ سے ہٹانے کے لیے لاٹھی چارج، آنسو گیس کے گولے اور یہاں تک کہ فائرنگ کا بھی سہارا لینا پڑا۔ آگرہ میں دن سے احتجاج جاری ہے۔ نوجوانوں نے گوالیار روڈ بلاک کر دی۔ کئی بسوں اور دیگر گاڑیوں کے شیشے توڑ دیے گئے۔
وارانسی جو کہ وزیر اعظم کا حلقہ ہے، سے ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ مظاہرین اپنے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور سلاخوں کے ساتھ چلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ کئی بسوں کے شیشے توڑ دئے گئے۔ ریلوے ٹریک پر جلتے ہوئے ٹائر پھینکے گئے۔ وارانسی کینٹ میں زبردست مظاہرہ کیا گیا۔ اسی طرح الہ آباد میں بھی نوجوان احتجاج سے پیچھے نہیں رہے۔
اگر ان کو معمولی واقعات مان لیا جائے تو کانپور، الہ آباد میں یوپی پولیس نے جس طرح کی کارروائی کی، کیا یہ اس سے بھی زیادہ خوفناک واقعات تھے؟ ستیہ ہندی نے جمعہ کو یوپی کے تمام شہروں سے موصولہ اطلاع شائع کی، جس میں کہا گیا تھا کہ یوپی کے ایک درجن سے زیادہ اضلاع اس تحریک سے متاثر ہیں۔