روزنامہ خبریں کی امروہہ سے گراؤنڈ رپورٹ
دھوپ کی شدت کے ساتھ انتخابی مہم میں بھی بلا کی گرمی آتی جارہی ہے ۔پہلے مرحلہ میں ووٹر کی سرد مہری نے حکمران بی جے پی کی چولیں ہلا دی ہیں اور وہ اپنے اکلوتے قائد کی گرما گرم ہیٹ اسپیچ کے ساتھ پرانے فرقہ وارانہ ایجنڈے پر لوٹ آئی ہے پی ایم کے نشانے پر مسلمان آگئے ہیں بانسواڑہ سے علی گڑھ تک مسلمان پر مشق ستم کی آنچ لگاتار تیز ہورہی ہے حالانکہ انہوں نے امروہہ کو بخش دیا اور محمد شامی کی باتیں کرکے امروہہ والوں کا دل جیتنے کی کوشش کی جیسے ہی لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلے کی مہم زور پکڑتی جارہی ہے، مغربی اتر پردیش کےا امروہہ حلقہ سیاسی لیڈروں کا اکھاڑہ بن گیا یہاں راہل،اکھلیش نے مشترکہ ریلی کی ،پی ایم آئے
وزیر اعظم نریندر مودی سے لے کر بہوجن سماج پارٹی کی سپریمو مایاوتی تک ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو یہ ایک سیٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے دیکھا جاسکتا ہے
امروہہ میں مسلم ووٹر 39.03فیصد ہے جبکہ ایس سی 17.8فیصد ہے 2019میں کنور دانش بی ایس پی کے ٹکٹ پر بی جے پی کے کنور سنگھ تنور سے 63ہزار ووٹوں کے مارجن سے جیتے تھے ۔ان کومایاوتی نے پارٹی سے نکال دیا تو وہ کانگریس میں چلے گئے ۔اور گٹھ بندھن نے ٹکٹ دے دیا ۔بی ایس پی سے ڈاکٹر مجاہد ہیں جبکہ بی جے پی نے کنور سنگھ پر بھروسہ جتایا ہے
معروف صحافی ڈاکٹر مہتاب امروہوی بتاتے ہیں کہ آغاز میں شہر کے لوگ کنور دانش سے بہت ناراض تھے ،ان کے لاپتہ ہونے کے پوسٹر بھی لگ گئے تھے ۔اب صورتحال بدل رہی ہے ،انہوں نے معافی مانگی اور مسلم ووٹروں کا جھکاؤ گٹھبندھن کی طرف ہوگیا ہے ،ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کنورسنگھ گوجر ہیں جن کا ووٹ کم ہے یہاں سے جاٹوں نے ٹکٹ مانگا تھا جو ایک لاکھ سے زائد ہیں چوہانوں کی بڑی تعداد ہے ان کو بھی نہیں دیا ،ان کا تجزیہ ہے کہ سینی،جاٹ ،چوہان ،بی جے پی سے بہت ناراض ہیں یہ ناراضگی کیا پولنگ میں بھی نکلتی ہے یہ دیکھنا ہے۔
کنور دانش علی امروہہ لوک سبھا سیٹ سے ایس پی-کانگریس اتحاد کی مشترکہ سیٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں اور ان کا مقابلہ بی ایس پی کے ڈاکٹرمجاہد حسین اور بی جے پی کے کنور سنگھ تنور سے ہے مقابلہ دلچسپ اور سخت ہونے کا امکان ہے دانش کے لئے جیت اتنی آسان نہیں ہے مایاوتی ذات پات کا حساب بٹھانے میں ماہر ہیں اگر ان کو مسلم ووٹ بھی مل جاتا ہے تو دانش کے لئے مشکل کھڑی ہوسکتی ہے ۔
بی جے پی کی مخالفت پر دانش کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں دانش علی کی موجودگی ان سب کو پریشان کرتی ہے۔ وہ سب پریشان ہیں کیونکہ میں ہمیشہ پسماندہ لوگوں کے لیے کھڑا رہا ہوں اور سلگتے ایشو پر اصولی موقف رکھتا ہوں۔
جب میں بی ایس پی میں تھا، میں نے ہمیشہ پارٹی کو اس کی خامیوں پر تنقید کرنے کی کوشش کی اور وسیع تر سطح پر میں نے ہمیشہ بی جے پی کے کسانوں، خواتین اور نوجوانوں کے مخالف جذبات کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ میں ان چند لوگوں میں پہلا تھا جنہوں نے مسلسل اپنی آواز بلند کی اور یہی وجہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ اور پارٹی میں مجھے نہیں چاہتے۔
وہ کہتے ہیں میں اور میرے آباؤ اجداد نے قوم کے لیے اپنا خون دیا ہے، پھر بھی وہ میری حب الوطنی اور ملک سے لگاؤ پر سوال اٹھاتے ہیں۔ یہ بہت افسوسناک ہے کہ ایک ملک کا وزیر اعظم پورے الیکشن کو کسی خاص کمیونٹی یا فرد پر تھوپ دے گا۔
مایاوتی کی طرف سے ان کے خلاف مسلم امیدوار کھڑا کرنے پر کنور دانش کا دعویٰ ہے کہ یہ بی جے پی کے ساتھ بی ایس پی کی صف بندی کو ظاہر کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بہن جی اتحاد میں آنے پر راضی نہیں ہوئیں۔ بی ایس پی بی جے پی کی حلیف جماعت ہے۔
ڈاکٹر مجاہد کے بارے میں دانش کہتے ہیں بی ایس پی نے جس امیدوار کو میدان میں اتارا ہے وہ ووٹ تقسیم کرنے والا ہے۔ اگر بی ایس پی آزاد ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اور بی جے پی کے خلاف لڑتی ہے تو انہیں ایسا امیدوار نہیں کھڑا کرنا چاہیے تھا جو ووٹ کاٹ سکے۔ بی ایس پی امیدوار ووٹ کاٹ سکتا ہے لیکن مجھے ہرا نہیں سکتے – کنور دانش کو بھروسہ ہے کہ امروہہ کے لوگ اب بی جے پی کے ایجنڈے سے واقف ہیں اور ووٹ تقسیم نہیں ہوگا
عام آدمی خاموش ہے وہ پتے نہیں کھول رہا ہندو ہو یا مسلمان ۔لیکن دل میں وہ فیصلہ کرچکا ہے کہ کہاں بٹن دبائے گا یہ سیٹ بی جے پی کے لئے حلوہ نہیں ہے وہ مسلم ووٹوں کی تقسیم کے سہارے ہے وہیں کنور دانش کی راہ آسان نہیں ہے ان کو بھی بی ایس پی سے خطرہ ہے اگر وہ زیادہ ووٹ کاٹ لے گیا تو کنور دانش کے لئے مشکل کھڑی ہوجائے گی حالانکہ بظاہر ہوا گٹھبندھن کے حق میں نظر آتی ہے