تحریر:فتح محمد ندوی
اعظم خاں صاحب ہم سب آپ کے بارے میں بڑے پریشان اور دکھی تھے۔ اب آپ جیل سے باہر آگئے۔ اس پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ یقیناً یہ سب اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور احسان ہے کہ آج آپ باعزت بری ہوگئے۔ ورنہ دشمن کی نیت اور ارادے تو صاف ظاہر تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ جیل کی ۔ تنگ اور تاریک کوٹھڑی سے باہر آئیں، یہی نہیں کورونا کے دنوں میں آپ کے حوالے سے جو خبریں موصول ہو رہی تھی وہ انتہائی پریشان کن تھیں۔ بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ ہمارے لوک پریتا قائد اعظم خاں صاحب کو ہم سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا جائے گا اورآپ اس طرح دشمنوں کی مذموم تدبیروں کا اور ناپاک حرکتوں کا سیاسی شکار ہو جائیں گے۔ تاہم اللہ تعالیٰ رحیم اور کریم ہے۔ دنیا کا پورا نظام اسی کے حکم اور اشاروں پر ۔چلتا ہے۔ وہ جوچاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ دشمن یا کسی کے چاہنے سے کبھی کچھ نہیں ہوتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ بے قصور تھے آپ کو پوری پلاننگ کے تحت جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گیامزید جیل کے اندر بھی آپ کو ذہنی اذیت پہنچا نے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی۔ہر طرح سے آپ کی خوداری اور غیرت کو چیلنج کیا گیا۔ لیکن صد آفریں آپ کی ہمت اور پہاڑ کی چٹان کی مانند آپ کی خوداری اور خود اعتمادی پر کہ آپ نے آخری لمحہ تک اپنی غیرت کا سودا نہیں کیا۔بلکہ آپ نے آہنی ارادوں سے دشمن کو شکست فاش دے دی۔
آخر اعظم خاں صاحب کو یہ کس جرم کی سزا ملی ہے۔ در اصل اعظم خاں صاحب ملک کے جہاں ایک عظیم اورماہر سیاستدان کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔ وہیں آپ ملت کے قائد ہیں۔ انہیں ملت کے تئیں سچی ہمدردی اور خیر خواہی ہے۔ وہ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا محمد علی جوہر کی طرح اپنی قوم کومعاصر قوموں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔یہی اعظم خاں صاحب کا وہ سب سے بڑا جرم ہے۔ جس کی انہیں شاید سزا ملی ہے۔
آخر اب سوال یہ ہے کہ جب اعظم خاں صاحب بے قصور تھے تو پھر انہیں ستائیس مہینے کیوں جیل میں رکھا گیا۔ تو اب ان کے ساتھ ہوئے اس جرم کا اصل ذمہ دار کون ہیں۔ کس کے اشاروں اور حکم پر ان کو یہ سزا دی گئی۔ کیا ہمارا عدالتی نظام اتتا گیا گزرا ہو گیا کہ کسی کے حکم پر کسی کے خلاف جھوٹے مقدمہ اور بے بنیاد الزام لگاکر کسی کو اس طرح ناحق سزادی جا سکتی ہے کہ سالوں اس کو جیل میں ڈال کر اپنی جھوٹی انا کو تسکین دی جائے۔
اس وقت عدالتی نظام کے اس پہلو پر سنجیدگی سے غور وفکر کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ملک کا پورا نظام انصاف کے تابع ہوتا ہے۔ اگر لوگوں کا اس نظام سے اعتماد اور اعتبار اٹھ گیا تو پھر جمہوریت کا تصور کہیں بے معنی سا ہوکر نہ رہ جائے۔ کیوں کہ اس وقت عدالتیں جس طرح طرفداری میں لگی ہوئی ہیں اور ایک خاص طبقہ کے سامنے سرنگوں ہیں۔ ڈر لگتا ہے کہ کہیں ملک کا جمہوری وقار اور شاخ داغ دار نہ ہو جائے۔ بلکہ ملک خانہ جنگی میں داخل نہ ہو جائے۔اس لیے عدالتوں کو کسی کی طرف رجحان کے بغیر ملک کے مفاد کو مقدم رکھنا چاہیے۔تا کہ ملک کی سالمیت اور اتحاد ہر صورت باقی رہے۔
میں مبارک باد پیش کرتا ہوں اپنے ان تمام ججوں کو جن ہوں نے ہر قسم کے چیلنج کو برطرف کر کے اس ملک کے عدالتی نظام کے وقار اور اعتبار کو باقی رکھے ہوئے ہیں۔
اعظم خاں صاحب کے حوالے سے آخری بات یہ ہے کہ دنیا میں جو بھی مصائب اور مشکلات پیش آتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کی آزمائش کے لیے آتے ہیں۔ اعظم خان صاحب اور انکے اہل خانہ پر یہ ایک بڑا امتحان تھا۔اس لیے ہر صورت اور حال میں توبہ و استغفار کی ضرورت ہے۔ تکبر و بڑائی کسی بھی صورت اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔یہ تلخ نوائی معاف میں نے خاں صاحب آپ کو علماء کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے خود سنا ہے۔ میرے کان اس پر گواہ ہیں مزید کہنے کی اور بہت سی باتیں ہیں۔آپ ہمارے محترم اور عزیز سے عزیز تر ہیں۔ آپ کی ملی خدمات کا نشان جو ہر یونیورسٹی کی شکل میں مادر گیتی کے سینے پر موجود ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)