ایڈووکیٹ ابوبکرسباق سبحانی
گزشتہ چند مہینوں میں تین صوبوں مدھیہ پردیش، اترپردیش اور پھر گجرات کی اسمبلی نے تبدیلی مذہب کو لے کر نئے قوانین پاس کئے ہیں۔ تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لئے قانون سازی کرکے نیز قانون میں سزا کی تجویزات پاس کرکے تبدیلی مذہب کے ساتھ ساتھ تبلیغ مذہب پر بھی سخت پابندی عائد کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں، ان قوانین کا ایک خاص مقصد لو جہاد کی سیاست کو بھی ہوا دینا محسوس ہوتا ہے، گزشتہ برسوں میں پورے ملک میں فرقہ وارانہ ذہنیت کو مزید زہرآلود کرنے کے لئے لو جہاد پر خاص شور و غوغا ہوا، کیرلا سے لے کر اترپردیش تک تقریبا ہر کورٹ میں لو جہاد کے نام پر مقدمات قائم ہوئے اور میڈیا نے بھی نفرت آمیز صحافت کے تمام حدود پار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، قانون سازی سے لے میڈیا کی ہنگامہ آرائیاں کہیں نا کہیں اقلیتوں کو نشانہ بنارہی ہیں، اقلیتی طبقہ سماج میں اپنی مخصوص شناخت کی بنیاد پر خوف و ہراس کا شکار ہے۔ قانون میں موجود تجویزات یا دفعات کا صحیح یا غلط ہونا یقینا ایک اہم بحث ہے لیکن کسی خاص طبقے کو نشانہ بناکر ڈر اور خوف کے ماحول میں فرقہ وارانہ ذہنیت کو ہوا دینا یقینا ناپاک سیاسی کھیل کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جہاں قانون کے غلط استعمال کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لئے بنائے جانے والے قوانین کی تاریخ تقریبا ایک صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے، یہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس پورے سفر میں تمام سیاسی پارٹیاں کندھے سے کندھا ملا کر ایک ہی سمت میں چلی ہیں۔ انیسویں صدی سے تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لئے قانون سازی کی کوششیں ہوتی رہی ہیں، ہمارے ملک میں تبدیلی مذہب سے مجروح ہونے والے گروہ میں سب سے پہلا نام ممبئی کے پارسیوں کا آتا ہے جنہوں نے بامبے سرکار کو تبدیلی مذہب پر پابندیاں عائد کرنے کے لئے پٹیشن پیش کی تھی، جنہوں نے مشنریوں کے بڑھتے اثرات اور ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے خلاف پیش قدمی کی تھی۔ برطانیہ حکومت کے سامنے بار بار تبدیلی مذہب پر پابندی عائد کرنے کے لئے قانون سازی کی تجویز رکھی گئی لیکن برطانیہ حکومت نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ ۱۹۳۰ اور ۱۹۴۰ کی دہائی میں متفرق راجواڑوں یا ریاستوں نے تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لئے قوانین بنائے جن کا مقصد برطانوی مشنریوں سے ہندومذہب اور اس کی شناخت کو محفوظ رکھنا بتایا گیا تھا۔ ان قوانین میں “رائے گڑھ اسٹیٹ کنورزن ایکٹ ۱۹۳۶”، “دی سرگوجا اسٹیٹ اپوسٹیسی ایکٹ ۱۹۴۲”، “اودیپور اسٹیٹ اینٹی کنورزن ایکٹ ۱۹۴۶” کچھ خاص قوانین تھے جو آزادی حاصل ہونے سے پہلے ہی الگ الگ ریاستوں کے ذریعے بنائے گئے تھے، ان ریاستوں کے علاوہ کوٹا، بیکانیز، جودھپور، پٹنہ، کالاہنڈی کے ہندو راجاوں نے بھی اپنی اپنی ریاستوں میں عیسائی مشنریوں کے ذریعے تبدیلی مذہب پر پابندی عائد کرنے نیز ہندو مذہب کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے قوانین بنائے تھے۔
ملک کے آزاد ہونے کے بعد ملک گیر سطح پر پارلیمنٹ کے ذریعے قومی قانون بناکر تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لئے کوششیں پھر سے شروع ہوگئی تھیں، ۱۹۵۴ میں عیسائی مشنریوں کے لائسنس اور تبدیلی مذہب کے سرکاری رجسٹریشن کو لازمی قرار دینے کے لئے “انڈین کنورزن (ریگولیشن اینڈ رجسٹریشن) بل” پیش کیا گیا لیکن یہ بل پارلیمنٹ میں پاس نہیں ہوسکا کیونکہ لوک سبھا نے اس قانون کو پاس کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ۱۹۶۰ میں غیر ملکی مذاہب جن میں اسلام، عیسائیت، یہودیت اور پارسی مذہب میں ہندووں کے تبدیلی مذہب کی تفتیش کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں” بیک ورڈ کمیونٹیز (ریلیجئس پروٹیکشن) بل ۱۹۶۰” کو پیش کیا گیا۔ ۱۹۷۹ مورارجی ڈیسائی کے دور حکومت میں بین المذاہب تبدیلی مذہب پر سرکاری روک تھام کے لئے “فریڈم آف ریلیجن بل” پیش کیا گیا جس کے بعد پورے ملک میں احتجاجات اور مظاہروں کا ایک طویل دور چلا، ان مظاہروں میں سب سے اہم مظاہرہ ۲۹ مارچ ۱۹۷۹ کو ہوا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ ۲۰۱۵ میں موجودہ این ڈی اے حکومت نے قومی سطح پر ایک نیشنل قانون بناکر تبدیلی مذہب پر شرائط و پابندیاں عائد کرنے کی کوششیں کیں تاہم مرکزی وزارت قانون کے مطابق مذہب صوبائی حکومت کا اختیار ہے کیونکہ لاٗ اینڈ آرڈر سے متعلق قوانین و ضوابط صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں، چنانچہ مرکزی حکومت نے قانون بنانے سے احتراز کیا۔
تبدیلی مذہب کو لے کر اگرچہ پارلیمنٹ ہاوس سے کوئی قانون پاس نہیں ہوسکا تاہم آزادی کے بعد ہمارے ملک کی صوبائی حکومتوں نے وقتا فوقتا تبدیلی مذہب سے متعلق صوبائی اسمبلیوں میں قانون پاس کئے، صوبائی حکومت کے ذریعے بنائے گئے قوانین میں سب سے پہلے اڑیسہ سرکار نے ۱۹۶۷ میں قانون پاس کیا جس کے بعد مدھیہ پردیش حکومت نے ۱۹۶۸ نے تبدیلی مذہب پر پابندی و شرائط عائد کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے ذریعے قانون پاس کیا۔
۱۹۷۷ میں مدھیہ پردیش کے ایک عیسائی پادری ریو اسٹینلیس نے مدھیہ پردیش کی کانگریس حکومت کے ذریعے بنائے گئے تبدیلی مذہب کے قانون کے خلاف پٹیشن پر سیپریم کورٹ آٖف انڈیا نے اپنا تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ “دستور ہند کے آرٹیکل ۲۵ میں مذہب کی آزادی کا حق تمام مذاہب کے لئے دستیاب کیا گیا ہے، جو آزادی کسی ایک مذہب یا اس کے ماننے والے کے لئے ہے وہی آزادی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی حاصل ہے، چنانچہ کسی کو اس کے مذہب سے دوسرے مذہب میں تبدیل کرنے کو مذہب کی آزادی نہیں کہا جاسکتا ہے۔ عدالت عالیہ نے تبدیلی مذہب کو بنیادی آزادی ماننے سے انکار کرتے ہوئے مذہب کو صوبائی حکومت کا دائرہ اختیار بتاتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت اگر چاہے تو مذہبی معاملات کے سلسلے میں اصول و ضوابط طے کرنے کے لئے قانون سازی کرسکتی ہے۔
چنانچہ سپریم کورٹ کے “ریو اسٹینلیس بنام اسٹیٹ آف مدھیہ پردیش” کے مقدمے کے فیصلے کے بعد دیگر کئی صوبوں میں بھی تبدیلی مذہب کو لے کر قانون بنائے گئے جن میں اڑوناچل پردیش کی حکومت نے ۱۹۷۸، چھتیس گڑھ نے ۲۰۰۰ میں، تمل ناڈو نے ۲۰۰۲ اور پھر گجرات سرکار نے ۲۰۰۳ میں ، ہماچل پردیش نے ۲۰۰۶ میں، جھارکھنڈ نے ۲۰۱۷ اور اتراکھنڈ حکومت نے ۲۰۱۸ میں تبدیلی مذہب پر قدغن لگانے کے لئے مخصوص شرائط و ضوابط پر منحصر قوانین بنائے۔ ۲۰۱۹ میں ہماچل پردیش اور پھر اتراکھنڈ نے تبدیلی مذہب کو لے کر قوانین بنائے جن کے مطابق اگر کوئی شادی کی غرض سے مذہب تبدیل کرتا ہے یا تبدیلی مذہب کا مقصد صرف شادی کرنا ہو تو وہ شادی غیر قانونی قرار دی جائے گی۔
نومبر ۲۰۱۹ میں اترپردیش لا کمیشن نے جبری یا دھوکہ دہی کے ذریعے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لئے تبدیلی مذہب کو منضبط کرنے والے قانون کی ضرورت کی تاکید کی جس کے بعد پہلے تو اترپردیش حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی مذہب کو پابند شرائط کیا نیز بعد میں اسمبلی نے تبدیلی مذہب پر قانون پاس کیا۔
تمام ہی صوبائی قوانین کے مطابق لالچ، دھوکہ یا زور ذبردستی ، پیسوں کا وعدہ، یا بہکاوے کے ذریعے مذہب کو تبدیل کرانا جرم قرار دیا گیا ہے تاہم اترپردیش، اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش کے تبدیلی مذہب قوانین کے مطابق شادی کے ذریعے یا شادی کے لئے مذہب تبدیل کرنے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔
تبدیلی مذہب سے متعلق تقریبا تمام صوبوں کے قوانین کے مطابق مذہب تبدیل کرنے والا نیز کروانے والا ضلعی انتظامیہ کو پہلے سے نوٹس پہنچائے گا، نوٹس کا سب سے سخت قانون اترپردیش میں ہے جہاں تبدیلی مذہب سے ۶۰ روز پہلے نوٹس دینی ہوگی جب کہ اتراکھنڈ میں ایک مہینے پہلے۔ الگ الگ صوبوں میں غلط طریقے سے مذہب تبدیل کرنے یا کرانے کی سزائیں متعلقہ قوانین میں متعین کی گئی ہیں، یہ سزائیں ایک سال سے لے سات سال تک کی قید کے علاوہ جرمانے کے ساتھ ہیں۔
یونائیٹیڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹر نیشنل ریلیجیئس فریڈم (USCIRF) کی رپورٹوں کے مطابق ان قوانین کے تحت مقدمات یا گرفتاریوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن ان قوانین کے ذریعے اقلیتی طبقات کے خلاف ڈر اور خوف اور تشدد کا خطرناک ماحول بنایا گیا ہے۔