انسانی حقوق کی تنظیموں، اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور یورپی یونین کے عہدیداروں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے والے ملکوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل روک دیں کیونکہ اس کے خلاف اس وقت عالمی عدالت انصاف میں نسل کشی کا مقدمہ چل رہا ہے۔
نیچے ان ممالک کا ایک جائزہ لیا ہے جن کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں جنہوں نے جنگ بندی کے بڑھتے ہوئے مطالبات کے باوجود اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھی ہوئی ہے۔
برطانیہ:
ہتھیاروں کی تجارت کے خلاف مہم کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی ہتھیاروں کی صنعت اسرائیل کو F-35 سٹیلتھ لڑاکا طیاروں کے 15 فیصد اجزا فراہم کررہی ہے۔ یہ طیارے اس وقت غزہ میں استعمال ہو رہے ہیں۔ اس طیارے کے اجزا کے معاہدے کا تخمینہ تقریباً 428 ملین ڈالر کا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے دسمبر 2023 میں رپورٹ کیا تھا کہ برطانیہ نے 2015 سے اسرائیل کو کم از کم 594 ملین ڈالر کی فوجی برآمدات کا لائسنس دیا ہے۔ ان برآمدات میں طیارے، میزائل، ٹینک، ٹیکنالوجی اور گولہ بارود شامل تھے۔
2018 اور 2022 کے درمیان برطانیہ نے سنگل ایشو ایکسپورٹ لائسنس کے ذریعے اسرائیل کو 186 ملین ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا-ببرطانیہ کے سکریٹری برائے دفاع گرانٹ شیپس نے کہا ہے کہ 2022 میں اسرائیل کو برطانیہ کی 54 ملین ڈالر کی برآمدات "نسبتاً کم”ہیں
ڈنمارک
ڈنمارک کے وزیر خارجہ لارس لوککے راسموسن نے جنوری میں اعلان کیا کہ ڈنمارک کی 15 کمنپیاں غزہ میں بمباری کے لیے استعمال ہونے والے ایف 35 لڑاکا طیاروں کے پرزے اسرائیل کو فراہم کر رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے این جی اوز کے ایک گروپ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ ڈنمارک کی ریاست پر مقدمہ دائر کریں گے کہ وہ اسرائیل کو نورڈک ملک کے اسلحے کی برآمدات کو روکے کیونکہ یہ ہتھیار غزہ میں شہریوں کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
آکسفیم ڈنمارک، ایکشن ایڈ ڈنمارک، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیم الحق نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ یہ مقدمہ وزارت خارجہ اور نیشنل پولیس کے خلاف دائر کیا گیا
جرمنی
اسرائیل کی فوجی برآمدات کا تقریباً 28 فیصد جرمنی سے آتا ہے۔ نومبر 2023 تک جرمن حکومت نے اسرائیل کو 323 ملین ڈالر مالیت کے آلات کی برآمدات کی منظوری دی تھی۔ ان برآمدات میں دفاعی نظام اور مواصلات کے آلات بھی شامل ہیں۔ غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد پہلے چند ہفتوں میں جرمنی نے اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی سے متعلق 185 اضافی برآمدی لائسنس کی درخواستوں کی منظوری دی۔جرمنی نے بنیادی طور پر فوجیوں کے لیے بکتر بند گاڑیوں اور حفاظتی سامان کی اسرائیل بھیجنے کی منظوری دی ہے۔۔
فرانس
فرانس کی وزارت دفاع کے اعداد و شمار کے مطابق فرانس نے گزشتہ 10 سالوں میں اسرائیل کو 226 ملین ڈالر سے زیادہ کا فوجی سازوسامان فروخت کیا ہے۔ فرانس میں اسرائیل کو ہتھیاروں کی حمایت روکنے کے لیے بڑھتے ہوئے مطالبات ہو رہے ہیں۔ بائیں بازو کی جماعت کے ارکان نے صدر ایمانوئل میکرون پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت بند کریں اور جو کچھ فروخت کیا جا رہا ہے اس میں شفافیت پیدا کریں۔
کینیڈا
سات اکتوبر کو غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی حکومت نے اسرائیل کو فوجی برآمدات کے لیے کم از کم 21 ملین ڈالر کے نئے اجازت ناموں کی منظوری دی ہے۔ کینیڈین لائرز فار انٹرنیشنل ہیومن رائٹس، فلسطینی تنظیم الحق اور چار افراد کی جانب سے مارچ میں دائر کیے گئے ایک مقدمے کے مطابق ایسے اجازت ناموں کی مالیت اس سے زیادہ ہے جس کی گزشتہ سال اجازت دی گئی تھی۔ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت جاری رکھنے پر ٹروڈو کی حکومت تنقید کی زد میں ہے۔
آسٹریلیا
آسٹریلیا نے گزشتہ پانچ برس میں اسرائیل کو 13 ملین ڈالر مالیت کا اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کیا ہے۔ اس میں 2022 میں 2.3 ملین ڈالر کا اسلحہ بھی شامل ہے۔ آسٹریلوی خبر رساں ادارے ’’اے بی سی‘‘ نے جنوری میں رپورٹ کیا کہ غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش کے باعث آسٹریلوی حکومت اسرائیل کی ہتھیاروں کی درخواستوں پر کارروائی میں جان بوجھ کر تاخیرر کی گئی-
ریاستہائے متحدہ امریکہ
اکتوبر 2023 میں اسرائیل کو امریکی فوجی ہتھیاروں کی فعال فروخت پہلے ہی 23.8 بلین ڈالر تھی۔ وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹوں کے مطابق جب سے اسرائیل نے غزہ میں وحشیانہ حملے شروع کئے ہیں امریکہ نے اسرائیل کو 253.5 ملین ڈالر کے اضافی ہتھیار فروخت کیے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں 5 ہزار ’’ ایم کے 84 ‘‘ بم بھی شامل ہیں جن میں سے ہر ایک کا وزن 2,000 پاؤنڈ ہے۔غزہ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک امریکہ نے اسرائیل کو 100 سے زائد ہتھیاروں کی فروخت کی ٹرانزیکشنز کی ہیں۔ ان میں ہزاروں بم بھی اسرائیل کو دئیے گئے ہیں۔ لیکن یہ ترسیل کانگریس کی نگرانی سے بچ گئی کیونکہ ہر لین دین کی منظوری کی ضرورت ڈالر کی رقم کے تحت تھی۔