تحریر:وکاس کمار
جیسے جیسے اترپردیش انتخابات میں بی جے پی امیدواروں کی فہرست جاری ہو رہی ہے، ایس پی سے بی جے پی میں گئیاپرنا یادو کے لیے ٹکٹ کا آپشن کم ہو تا جارہا ہے۔ منگل کو جاری کردہ فہرست میں لکھنؤ کینٹ سے برجیش پاٹھک کواور سروجنی نگر سے راج راجیشور سنگھ کو ٹکٹ ملا ہے۔ قیاس آرائی کی جا رہی تھی کہ اپرنا یادو ان دونوں سیٹوں میں سے کسی ایک سے امیدوار بن سکتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اپرنا یادو ایس پی چھوڑ کر بی جے پی میں کیوں شامل ہوئیں؟ جھگڑا ٹکٹ کو لے کر تھا، بی جے پی میں بھی نہیں ملا۔ پھر وہاں جانے کی کیا وجہ ہے؟ وہ بی جے پی میں رہ کر کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں؟
اپرنا یادو کو لکھنؤ کینٹ سے ٹکٹ کیوں نہیں ملا؟
2017 کے اسمبلی انتخابات میں اپرنا یادو ایس پی کے ٹکٹ پر لکھنؤ کینٹ سے امیدوار تھیں، لیکن ہار گئیں۔ انہیں 32 فیصد ووٹ ملے۔ لکھنؤ کینٹ کو بی جے پی کی محفوظ سیٹ سمجھا جاتا ہے۔یہاں 2002، 2007 اور 2017 میں بی جے پی کا قبضہ رہا۔ کینٹ میں برہمن ووٹرز زیادہ ہیں، جبکہ اپرنا یادو بشٹ راجپوت ہیں۔ اس لیے انہیں یہاں سے اتارنابی جے پی کے لیے گھاٹے کا سودا ہوتا۔
یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت پر برہمنوں کے خلاف کارروائی کرنے کا الزامات لگتے رہے ہیں۔ اسی لیے پارٹی نے اس بار برجیش پاٹھک کو میدان میں اتارا ہے۔ وہ لکھنؤ کی سینٹرل سیٹ سے ایم ایل اے ہیں، لیکن اس بار ان کی سیٹ بدل دی گئی۔
یادیو خاندان میں سال 2017 میں جو جھگڑا ہواتھا، اس کی شروعات اپرنا یادو سے ہی شروع ہوئی تھی۔ لیکن بنیاد شیو پال بن گئے تھے۔ اکھلیش کا الزام تھا کہ شیو پال نے ان کے سوتیلے بھائی کی حمایت کی، جس کی وجہ سے تلخی بڑھ گئی تھی۔ اپرنا چاہتی تھی کہ انہیں لکھنؤ کینٹ سے ٹکٹ مل جائے۔
کرہل سے میدان میں اترنے کی قیاس پر بھی لگ چکاہےبریک
اپرنا یادو کے بارے میں ایک اور قیاس آرائی تھی کہ وہ اکھلیش یادو کے خلاف میدان میں اتریں گی۔ وجہ یہ تھی کہ بی جے پی اکھلیش کے پریوار میں ٹوٹ کی بیانیہ کو ختم نہیں ہونے دینا چاہتی، تاہم کرہل سے مرکزی وزیر ایس پی سنگھ بگھیل کو میدان میں اتارا گیا۔ یہاں بی جے پی کی مجبوری تھی۔ وہ یہ نہیں دکھانا چاہتی ہے کہ انہوں نے اکھلیش یادو کو واک اوور دیا ہے، بلکہ یہ دکھانا چاہتی ہے کہ ایک مرکزی وزیر کے ذریعے بھی سخت مقابلہ ہے، اسی لیے یہاں سے بھی اپرنا یادو کا ٹکٹ کٹ گیا۔
جب اپرنا یادو ایس پی چھوڑ کر بی جے پی میں گئیں تو پارٹی کے بڑے لیڈروں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ اگلے ہی دن وہ ادیتی سنگھ کے ساتھ بی جے پی کی خواتین بریگیڈ میں نظر آئیں۔ بہت پبلسٹی ملی، لیکن اب تک پارٹی نے اپرنا سنگھ کو ٹکٹ نہیں دیا ہے۔ اس کے پیچھے دو بڑی وجوہات نظر آتی ہیں۔
1- اپرنا یادو کاملائم سنگھ کی بہو کے علاوہ ایک لیڈر کے طور پر شناخت نہیں رہی ہے۔ ان کی بحث دو وجوہات سے ہی ہوتی رہی ہے۔ پہلی الیکشن آنے پر ٹکٹ کو لےکر، دوسری مودی -یوگی کی قیادت کی تعریف کرنےپر۔ زمین پر ان کی پکڑ نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ ایس پی میں تھیں تب اکھلیش انہیں ٹکٹ دینے سے بچتے تھے۔ 2017 میں ملائم سنگھ کے کہنے پر مجبوری میں ٹکٹ دیا۔ نتیجہ سب کےسامنےہے۔ اب بی جےپی میں گئیں، وہاں بھی بی جے پی کے بیک اپ کےعلاوہ انتخاب میں فائٹ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے۔
2- بی جے پی کو امید نہیں ہوگی کہ اپرنا یادو کو پارٹی میں شامل کرنے کے پیچھے ان کی وجہ سے پارٹی کی حمایت کی بنیاد مضبوط ہوگی۔ بی جے پی اکھلیش یادو کے پریوار میں ٹوٹ پھوٹ کا پیغام دینا چاہتی تھی۔ اس بات کی بھی منچ سے بہت تشہیر کی گئی۔ آگے بھی کرتے رہیں گے۔ ایسے میں یہی سمجھ آتا ہے کہ اپرنا یادو کو ٹکٹ نہ دے کر انتخابی تشہیر میں اتارا جائے۔ ملائم سنگھ یادوکی بہو کے طور پر۔ اکھلیش یادو پر انہی کے پریوار کے ممبر کے ذریعہ بیان دلواکر ۔ ان طریقوں سے بی جے پی کو بیانیہ سیٹ کرنے میں فائدہ مل سکتا ہے۔
ٹکٹ نہیںملنا تھا تو اپرنا یادو بی جے پی میں گئی کیوں؟
بی جے پی میں شامل ہونے سے اپرنا یادو کو یقینی طور پر فائدہ ہوا ہے۔ وہ چہرہ جو ایس پی میں رہتے ہوئے میڈیا سے غائب رہتا تھا۔ سرخیوں میں نہیں تھا۔ تشہیر اور پہچان کی کمی تھی۔ وہ بی جے پی میں آکر پوری ہوتی نظر آرہی ہے۔ جے پی نڈا، یوگی آدتیہ ناتھ، کیشو پرساد موریہ جیسے بڑے چہروں نے پارٹی جوائن کرائی۔ مہیلا بریگیڈ میں جگہ ملی۔ یعنی اپرنا یادو کو ایک لیڈر کے طور پر میڈیا میں کوریج مل رہی ہے۔ مستقبل میں بھی ایسا ہی متوقع ہے، جبکہ ایس پی میں تھیں تو شاید انہیں سب سے زیادہ یہی ناراضگی تھی۔ ایک لیڈر کے طور پر پہچان کی۔ وہ بی جے پی سے مل سکتی ہے، حالانکہ یہ پہچان کتنی ملے گی یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن یہ ضرور ہے کہ کسی لیڈر کا مقصد الیکشن لڑنا ہوتا ہے، لیکن اپرنا اس معاملے میں پیچھے چھوٹتی نظر آرہی ہے ، بی جے پی بھی ساتھ نہیں دے رہی ہے۔