بنگلورو: (مدثر احمد؍ایجنسی)
کرناٹک حجاب معاملے میں منگل کو بھی ہائی کورٹ سے کوئی فیصلہ نہیں آیا، بنچ نے سماعت 16فروری تک بڑھا دی ہے ۔ اس سے قبل دیودت کامت نے کہا تھا کہ سماعت مارچ کے بعد کی جائے کیوں کہ اس معاملے کو الیکشن میں فائدہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیاجارہا ہے، اس پر بنچ نے کہاکہ الیکشن کمیشن سے یہ معاملہ جڑا ہے ہم سے نہیں۔ حالانکہ اس سے قبل ریاست کے مختلف اسکولوں میں مسلم طالبات سے جبراً حجاب اتروائے گئے۔ اطلاعات کے مطابق شیموگہ کے ایک اسکول میں منگل کو حجاب پہننے ایک طالبہ نے امتحان میں بیٹھنے سے انکار کردیا، کیوں کہ اسکول کے عہدیداروں نے طالبہ سے حجاب اتارنے کو کہا تھا، طالبہ نے میڈیا سے کہاکہ ہم بچپن سے ہی حجاب پہن کر بڑی ہوئی ہیں، اور ہم اسے چھوڑ نہیں سکتے، میں امتحان نہیں دوں گی میں گھر واپس جارہی ہوں۔
دوسری جانب چک منگلور کے انداورا گائوں کے سرکاری اسکول میں طالبات کو حجاب پہننے کی وجہ سے داخلہ نہیں مل سکا جس پر وہاں خوب ہنگامہ آرائی ہوئی اور احتجاج کیاگیا، طالبات کے والدین اسکول احاطے میں گھس کر نعرے بازی اور مطالبہ کیاکہ انہیں تحریری حکم نامہ دیاجائے مخالفت تیز ہونے پر اسکول کو دن بھر کےلیے بند کردیاگیا، کچھ ایسا ہی معاملہ تم کر کے ایس وی ایس کالج میں سامنے آیا۔
پیر کی شب کیرل کا کالی کٹ اللہ اکبر کے نعروںسے گونج اُٹھا، یہاں ہزاروں کی تعداد میں مسلم خواتین نے حجاب کی حمایت میں احتجاج کیا۔ادھر یہ معاملہ عدالت میں زیر غور ہے دوسری طرف ریاستی حکومت نے 16 فروری سے 12ویں اور12ویں کے اسکول وکالج کو پھر سے کھولے جانے کا اعلان کردیا ہے۔
کرناٹک ہائی کورٹ میں حجاب کے تعلق سے آج بھی زبردست بحث ہوئی۔جس میں ایڈوکیٹ کامت نے بنیادی حقوق کے تعلق سے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے پوچھے جانے پر بین الاقوامی سطح کے دلائل پیش کئے،اس سے قبل ایڈوکیٹ محمد طاہر نےعدالت میں یہ اپیل کی کہ ریاستی حکومت عدالتی فیصلہ کا غلط استعمال کررہی ہے اور تمام اسکولوں میں زبردستی لڑکیوں کا حجاب نکلوایاجارہاہےاورگلبرگہ کی ایک اردو اسکول میں محکمہ تعلیم کے افسران زبردستی ہٹانے کیلئے زور کررہے ہیں۔اس پر عدالت نے پوچھاکہ کیا آپ نے اس تعلق سے تصدیق نامہ پیش کیاہے،اس پر ایڈوکیٹ طاہر نے حامی بھری تو ایڈوکیٹ جنرل نے کہاکہ یہ تصدیق نامہ درست نہیں ہے کیونکہ اس تصدیق نامہ کو عرضی گذار کے ذریعے سے دائرکرنی ہے نہ کہ وکیل کے ذریعے سے داخل کروائی جاسکتی ہے۔ مزید چیف جسٹس نے کہاکہ ہم اس سلسلے میں متعلقہ افسران کو ہدایت دیں گے، مزید کہاکہ آپ اس معاملے پر علیحدہ تصدیق نامہ درج کریں۔اس معاملے میں آج ایک اور وکیل نے شعبہ خواتین کے ذریعے عدالت میں عرضی پیش کی ہے،ایڈوکیٹ شہادان فراست نے یہ عرضی پیش کی ہے۔اس کے بعد سینئرایڈوکیٹ کامت نے عدالت کو آرٹیکل25(1) اور(2)کی دلیل دیتے ہوئے کہاکہ حجاب ایک مذہبی بنیادی حق ہے اوریہ سپریم کورٹ کے1962 کے مقدے کے فیصلے سے ملاپ کھاتاہے،اسی طرح سے انہوں نے بوہرہ سماج کے رہبر سید نا طاہر کے معاملے کی بھی دلیل پیش کی،اس بعد انہوں نے کہاکہ بعض معاملات آر ٹیکل25(2)(A) اور(B) کے مطابق نہ بھی ہوں تو عوامی نظم ،اخلاقیات اور صحت کے مطابق پیش کئے جاسکتے ہیں۔بعض موقعوں پر بعض راویتیں جیسے ستی کی رسم،شوہرکےمرنے پر زبردستی سرکے بال نکالنایا پھر گھر سے باہرنکالنا مذہبی رواج ہونے کے باوجود غیر اخلاقی اور غیر انسانی حرکت مانی جاسکتی ہے،البتہ حجاب کا معاملہ اس سے ہٹ کر بے ضرر معاملہ ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ اُن غیر اخلاقی اور غیر انسانی حرکتوں کو مذہبی ہونے کے باوجود قانونی درجہ نہیں دیاجاسکتا تو کسی کو تکلیف پہنچا سکتے ہیں۔انہوں نے یہ کہاکہ جب میں کالج جایا کرتا تھا تو میرے ساتھ رودراکش پہنا کرتا تھا،حالانکہ یہ میرے مذہب کی پہچان نہیں ہے،لیکن میرے عقیدے کا حصہ ہے،آج بھی کئی جج اور وکیل مذہبی چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔مزید انہوں نے کہاکہ اگر شال کو ہندوازم میں یاپھر ویدو اوپنیشد میں پہننے کیلئے کہاگیاہے یا ہندو مذہب کا حصہ کہاگیاہے تو یہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ اس کیلئے بھی احکامات جاری کریں،لیکن اس وقت ایجوکیشن ایکٹ میں کسی کے مذہب کی توہین کرنے کا موقع نہیں دیاگیاہےاور یہ سب کو آزادی کاحق دیتاہے۔انہوں نے اس دوران سائوتھ آفریقہ ،کینڈا،امریکہ میں انسانی حقوق ،مذہب کی آزادی اور اسکولوں میں یونیفارم کی آزادی کے تعلق سے دئیےگئے فیصلوں کی نشاندہی کرتے ہوئے عدالت کو بتایاہے کہ وہاں پر بھی ایسے ہی معاملات میں عدالت نے مذہبی اقلیتوں کو حق دیاہے۔اس کے بعد انہوں نے بھارت کے جنوبی ہند میں استعمال کئے جانے والےنتھنی(ناک کا تارہ)کی مخالفت کی گئی تھی جس میں کہاگیاتھا کہ یہ یونیفارم کا حصہ نہیں ہے،جس پر مدارس ہائی کورٹ نے فیصلہ دیاتھاکہ جب اسکول میں ہوں تو نتھ نکال دو اور،اسکول سے باہر جانے کے بعد اس کا استعمال کرو۔لیکن سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہاکہ بھلے میں ہی نتھ ڈالنا یونیفارم کا حصہ نہیں ہے،لیکن اسکول کے وقت میں نتھ نکالنا اور بعدمیں پہننا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سماج اس کے مذہب اور روایت کو قبول نہیں کرتا،اس لئے اسے نتھ پہننے سے نہیں روکاجاسکتا۔
انہوں نے مزیدکہاکہ حجاب پہننے سے یونیفارم نہیں بدلتااورنہ ہی کسی کوکوئی تکلیف ہے،البتہ حجاب کے معاملے میں رعایت طلب کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ محض اس حجاب کی وجہ سے طالبات کو نکال دیاگیاہے۔اس پر جسٹس دکشت نے پوچھاکہ کیا طالبات کو نکال دیاگیاہے؟تو ایڈوکیٹ کامت نے کہاکہ نہیں،ان طالبات کو کلاس میں داخل ہونے نہیں دیاجارہاہے،میں نے غلط لفظ استعمال کیا ہے۔اپنی دلیلیں پیش کرنے کے بعد ایڈوکیٹ کامت نے عدالت سے عبوری راحت طلب کی تو چیف جسٹس نے کہاکہ ہم ابھی اس نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں کہ عبوری راحت دے سکیں۔اسی دوران ایڈوکیٹ روی ورما کمارنےمس ریشماں کی مقدمے کی سنوائی کیلئے عدالت سے اجازت طلب کی،جبکہ ایڈوکیٹ طاہرنے اپنی جانب سے پیش کردہ عرضی کو واپس لیا۔
دریںاثناء ایڈوکیٹ جنرل نے بتایاکہ ایک عرضی گذاردو علیحدہ معاملات میں پارٹی نہیں بن سکتا۔اس کے بعد پروفیسر روی ورماکمارنے بحث شروع کی اور کہاکہ میرے موکل کو28 دسمبر سے کالج میں داخل ہونے نہیں دیاجارہاہے اور کہاگیاہے کہ آپ کالج کے کوڈ آف کندکٹ آف انسٹیٹیویشن کی خلاف ورزی کررہے ہیں،جبکہ کوڈ آف کنڈکٹ ان تعلیمی اداروں پر نافذنہیں ہے۔گورنمنٹ نے یونیفارم ڈریس کوڈ کا فیصلہ لیاہےاور کہاہے کہ اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ذریعے سے یونیفارم کا کوڈ آف کنڈکٹ بنایاگیاہے،جبکہ گورنمنٹ کے حکم کے مطابق ہی کسی بھی یونیفارم میں حجاب کو پہننا ممنوع قرارنہیں دیاہے اور نہ ہی کسی بھی سرکاری حکم نامے میں حجاب کو نہ پہننےکیلئے کہاگیاہے۔پروفیسر کمارورمانے مزیدکہاکہ کہیں بھی اقلیتوں کو حجاب پہننے سے روکانہیں گیاہے ،جبکہ خود گورنمنٹ آرڈرمیں کہاگیاہے کہ جب تک سی ڈی سی یونیفارم کو طئے نہیں کرتی اُس وقت تک اُس لباس کو نہ پہننا جائے جو قانونی نظم ونسق کو بگاڑے،مساوات اور اتحادمیں خلل ڈالے،لیکن حجاب پہننے سے قانونی نظم ونسق میں خلل پیدا نہیں ہوتا۔ ایجوکیشن ایکٹ ہی مکمل ضابطہ ہے جبکہ کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی کو قانونی حیثیت نہیں ہے ،یہ علیحدہ شعبہ ہے،جو یونیفارم اور منصوبوں کے تعلق سے فیصلے نہیں لے سکتا۔اس پر چیف جسٹس نے پوچھاکہ سی ڈی سی کو کیا قانونی حیثیت نہیں ہے،تو اس پر پروفیسر روی ورماکمارنے کہاکہ نہیں عزت مآب سی ڈی سی قانونی دائرے میں نہیں ہے۔
انہوں نے ایجوکیشن آیکٹ کی شق2(17)کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ایساکوئی قانون سی ڈی سی کیلئے دستیاب نہیں ہے۔اسی دوران پروفیسر کمارنے کہاکہ کل سے کالج شروع ہونے جارہے ہیں لیکن حکومتی ادارے ہائی کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کررہے ہیں اور طالبات و اساتذہ کوہراساں کررہے ہیں،ابھی اس پر تبصرہ ہورہاتھا اُس وقت ایڈوکیٹ جنرل نے کہاکہ اگر ا س سلسلے میں درست عرضی دائرکی جاتی ہے تو ہم اس کاجواب دیں گے۔
اس موقع پر ایڈوکیٹ طاہرکی جانب سے دائرکردہ عرضی کو مسترد کردیاگیا۔عدالت نے معاملے کی سماعت16فروری کی دوپہر کو دوبارہ کرنے کی بات کہی ہے۔ڈگری کالج کے طلباء کیلئے یونیفارم لازمی نہیں ہے،طلباء اپنی پسند کے مطابق لباس پہن سکتے ہیں،سرکاری کالجوں میں اس کی آزادی ہے لیکن اس کاغلط استعمال نہ کیاجائے۔اس بات کااظہار ریاستی وزیر برائے اعلیٰ تعلیم ڈاکٹر سی این اشوتھ نارائن نے کیاہے۔چامراج نگر میں انہوں نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اسکول،پی یو کالجوں میں یونیفارم لازمی ہےاس لئے وہاں قانون پرعمل کرنا ہوگا۔اسی لئے وہاں پر حجاب کے استعمال کوممنوع قرار دیاگیاہے۔بُدھ سے کالج شروع ہونے جارہے ہیں،کالجوں میں باہر سے آنے والوں کو داخل ہونے کا ہرگز بھی موقع نہیں دیاجائیگا،حجاب اورکیسری شال کے تعلق سے بحث بھی نہ کی جائے۔انہوں نے کہاکہ طلباء پُراطمینان کے ساتھ تعلیم پر توجہ دیں۔