نئی دہلی(ایجنسی)
سال2002کے گجرات فسادت میں ریاست کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو ایس آئی ٹی کی کلین چٹ کے خلاف ذکیہ جعفری کی عرضی پر منگل کو سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی، ذکیہ جعفری نے ایس آئی ٹی پر ملزمین کے ساتھ ملی بھگت کا الزام لگایا حالانکہ سپریم کورٹ نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ کے ذریعے تشکیل دی گئی ایس آئی ٹی کے لیے ملی بھگت ایک سخت لفظ ہے یہ وہی ایس آئی ٹی ہے جس نے دیگر معاملوں میں چارج شیٹ داخل کی تھی اور ملزمین کو مجرم ٹھہرایا تھا ان کارروائیوں میں ایسی کوئی شکایت نہیں ملی۔
ذکیہ جعفری کی جانب سے پیش ہوئے سینئر وکیل کپل سبل نے کہاکہ جب ایس آئی ٹی کی بات آتی ہے تو ملزمین کے ساتھ ملی بھگت کے واضح ثبوت ملتے ہیں۔ سیاسی طبقہ بھی معاون بن گیا۔ ایس آئی ٹی نے اہم دستاویزوں کی تحقیقات نہیں کی اور اسٹنگ آپریشن، ٹیپ، موبائل فون ضبط نہیں کیا۔ کیا ایس آئی ٹی کچھ لوگوں کو بچا رہی تھی؟ شکایت کی گئی تو بھی قصور واروں کے نام نوٹ نہیں کیے گئے۔ یہ ریاست کی مشنری کے ملی بھگت کو واضح کرتا ہے۔ تقریباً سبھی معاملوں میں ایف آئی آر کی کاپی نہیں دی گئی۔ اس معاملے میں جو آخری شکار بنا وہ خود انصاف تھا۔
جسٹس اے ایم کھانویلکر، جسٹس دنیش مہیشوری اور جسٹس سی ٹی روی کمار کی بنچ نے سماعت کے دوران کہا کہ یہ پولس کے ساتھ ملی بھگت ہوسکتی ہے، آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ عدالت کے ذریعے تشکیل دی گئی ایس آئی ٹی نے ملی بھگت کی؟ عدالت کے ذریعے تشکیل شدہ ایس آئی ٹی کےلیے ملی بھگت ایک مضبوط لفظ ہے وہی ایس آئی ٹی جس نے دیگر معاملوں میں چارج شیٹ داخل کی تھی اور ملزمین کو قصور وار ٹھہرایا گیاتھا۔ ان کارروائیوں میں ایسے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ معاملے میں آج بھی سماعت جاری ہے۔
غورطلب ہے کہ 2002 کے گجرات فسادات کے دوران گلبرگ ہائوسنگ سوسائٹی قتل میں ہلاک کئے گئے کانگریسی لیڈر احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری نے ایس آئی ٹی رپورٹ کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ رپورٹ میں ریاست کے اعلیٰ عہدیداروں کے ذریعے گودھرا قتل معاملے کے بعد فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے میں کسی بھی بڑی سازش سے انکار کیاگیا ہے۔ 2017میں گجرات ہائی کورٹ نے ایس آئی ٹی کی کلوزر رپورٹ کے خلاف ذکیہ جعفری کے خلاف شکایت کو مجسٹریٹ کے ذریعے خارج کرنے کے خلاف چیلنج کو خارج کردیا تھا۔