نی دہلی اپوزیشن خاص طور سے کانگریس ان دنوں برے دور سے گزررہے ہیں ابھی مہارشٹر کا قصہ ختم بھی نہیں ہوا کہ جھارکھنڈ میں کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل کی حمایت سے ہیمنت سورین کی حکومت چلانے کے بارے میں کافی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ انگریزی اخبار ‘اکنامک ٹائمز’ کی ایک رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر میں مہا وکاس اگھاڑی کی حکومت گرنے کے بعد جھارکھنڈ میں ہیمنت سورین کی حکومت کو لے کر سسپنس بڑھ گیا ہے۔ دی اکنامک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے، ’’صدارتی انتخاب پر ہیمنت سورین کا موقف کانگریس سے دور ہوتا جا رہا ہے اور دوسری طرف وہ مرکزی ایجنسیوں کی جانچ میں جھلس رہے ہیں۔ کرپشن کے معاملے میں ان کے قریبی ساتھیوں کے ٹھکانوں پر چھاپے مارے جارہے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ کے خلاف بھی کوئلہ کان کی مبینہ غیر منصفانہ الاٹمنٹ پر الیکشن کمیشن اور عدالت میں نااہلی کی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ تاہم، جھارکھنڈ کا حکمراں اتحاد یہ دکھاوا کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ سب ٹھیک ہے۔ لیکن دہلی اور رانچی میں اقتدار کے گلیاروں میں ہیمنت سورین کی ڈھائی سالہ حکومت کے بارے میں بہت سی باتیں کہی جارہی ہیں۔ صدارتی انتخاب میں دروپدی مرمو کو ووٹ دینا جے ایم ایم کی مجبوری ہے کیونکہ وہ سنتھل قبائلی ہیں۔ ہیمنت سورین بھی سنتھال قبائلی ہیں۔ دروپدی مرمو جھارکھنڈ کی گورنر بھی رہ چکی ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ قبائلیوں کے تئیں حساس جے ایم ایم نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں رہنے کے باوجود 2012 کے صدارتی انتخاب میں این ڈی اے کے قبائلی امیدوار پی اے سنگما کی جگہ یو پی اے کے پرنب مکھرجی کی حمایت کی تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ ہیمنت سورین مرمو کے تئیں جوش دکھا کر دہلی کی عدالت کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 2012 میں صدارتی انتخاب کے چند ماہ بعد ہیمنت سورین بی جے پی سے اتحاد توڑ کر کانگریس میں شامل ہو گئے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس صدارتی انتخاب کے بعد بھی ہیمنت سورین جھارکھنڈ میں کچھ تبدیلیاں کر سکتے ہیں۔