بنگلور :(ایجنسی)
ایک طرف کرناٹک میں مسلم لڑکیاں حجاب پہننے کی وجہ سے حکومت سے لے کر شر پسند عناصر کے نشانے پر ہیں تو دوسری طرف کرناٹک کے نجی اسکولوں میں منتروں کا جاپ اور ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کیا جا رہا ہے۔
کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے آخری عبوری حکم میں واضح طور پر کہا تھا کہ ہمارے اگلے حکم تک کسی کو بھی اسکول کالج میں کسی قسم کی مذہبی علامت یا شناخت پہننے یا اسے اپنی سرگرمیوں میں شامل کرنے کا حق نہیں ہوگا۔ عدالت نے اس میں تمام تعلیمی اداروں کا ذکر کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شرالکوپہ کے الامین ہائی اسکول میں حجاب پہن کر آئیوں لڑکیوں کو انٹری سے روک دیا گیا،جبکہ اس کا انتظام مسلمانوںکے ہاتھ میںہے۔ یعنی اس مسلم ادارے نے بھی یہاں ہائی کورٹ کے حکم کونافذ کیا ۔
دوسری طرف اڈوپی کے کارکلا کے اس اسکول کو دیکھیں۔ جیسز انگلش میڈیم اسکول کرکلا میں طلباء، لڑکیوں اور اساتذہ کو روزانہ منتر اور ہنومان چالیسہ کا جاپ کرنا پڑتا ہے۔ اس ویڈیو کو ٹائمز آف انڈیا کے خصوصی نامہ نگار شریاس ایچ ایس نے ٹویٹ کیا ہے۔ اب یہ ویڈیو وائرل ہو چکا ہے۔ شریاس نے لکھا ہے کہ کرناٹک میں مسلم طالبات کو صرف حجاب پہننے پر نشانہ بنایا جا رہا ہے جب کہ کرکلا کے جیسز انگلش میڈیم اسکول میں کھلے عام ہندوتوا کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں روزانہ منتر اور ہنومان چالیسہ کا جاپ کیا جاتا ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کے اس رپورٹر کی وائرل ویڈیو پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد کھل کر کرناٹک حکومت کی اس ہپوکریسی پر تنقید کر رہی ہے، جب کہ بہت سے لوگ اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ بہت عام ہے کہ مسلمان لڑکیاں اس اسکول یا کالج کی یونیفارم پہن کر حکم کی تعمیل کرتی ہیں، ان کے سر پر صرف حجاب اضافی ہوتا ہے جس سے ان کے بال ڈھکے رہتے ہیں اور صرف چہرہ نظر آتا ہے۔ اس پر کوئی اعتراض کیوں کرے؟
بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ اسکول کالج میں اگر کوئی صلیب (عیسائی علامت)، رودراک کی مالا، پگڑی یا کرپان سر پر لاتا ہے تو مسلمان طلبہ نے اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔ اسکول کالج انتظامیہ اور حکومت نے بھی کبھی اس کی مخالفت نہیں کی۔ پھر حجاب کو کس مقصد کے لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے؟
کچھ لوگوں نے لکھا ہے کہ پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کے پیش نظر یہ معاملہ گرم ہوا ہے۔ کرناٹک میں اس واقعہ کو بھڑکا کر یوپی میں ہندو مسلم پولرائز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ووٹنگ کے دو مرحلوں میں بی جے پی زیادہ کچھ نہیں کرسکی، اس لیے حجابی ہنگامہ اور بڑھایا جارہا ہے۔ دوسری جانب جیسیز اسکول میں منتر اور ہنومان چالیسہ کے جاپ کو جواز بتاتے ہوئے لوگ لکھ رہے ہیں کہ عدالت کا حکم سرکاری اسکولوں کالجوں کے لیے ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کے لیے نہیں۔ جیسیز انگلش میڈیم اسکول کرکلا ایک نجی ادارہ ہے۔ انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ کوئی بھی طریقہ اختیار کریں۔ کچھ لوگوں نے لکھا ہے کہ یہ ہندو اکثریتی ملک ہونے کے ناطے جیسیز جیسے اداروں کی طرف اشارہ نہیں کیا جا سکتا۔
5 فروری کو کرناٹک حکومت نے ریاست کے تمام تعلیمی اداروں میں حجاب یا دیگر مذہبی علامات پہننے پر پابندی لگانے کا حکم جاری کیا۔ حکم نامے کے تحت، ریاستی حکومت نے طلباء کے لیے حکومت اور نجی اسکولوں اور پی یو کالجوں کی انتظامیہ کی طرف سے تجویز کردہ یونیفارم پہننا لازمی قرار دیا ہے۔ حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پرائیویٹ اداروں کے طلباء انتظامیہ کے طے کردہ ڈریس کوڈ پر عمل کریں۔
حکومتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایسے لباس کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے جو مساوات، سالمیت اور امن عامہ میں خلل ڈالیں۔
تمام تعلیمی اداروں کے نزدیک دفعہ 144 نافذ
دریں اثناء حجاب تنازع کے درمیان کرناٹک پولیس نے تعلیمی اداروں کے نزدیک دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔ خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق ہبلی دھارواڑ میں سی آر پی سی کی دفعہ 144 کے تحت تمام تعلیمی اداروں کے 200 میٹر کے دائرے میں 28 فروری تک فوری طور پر امتناعی احکامات نافذ کیے ہیں۔ اُڈپی کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ایس ٹی سدیلنگپا نے کہا ’’اڈوپی میں کشیدگی نہیں ہے اور حالات مکمل طور پر پُر امن ہیں۔ ہم ہائی کورٹ کے عبوری حکم کی تعمیل کر رہے ہیں۔‘‘