قاسم سید
مان لیجئے گورکھپور ہوٹل والے واقعہ میں منیش گپتا کی اور اس کے دوستوں کی جگہ مثلاً ریاض اور اس کے دوست ہوتے، تفتیش کے نام پر وصولی کرنے گئی پولیس کے ہاتھوں ریاض کا قتل ہوجاتا تو میڈیا، پولیس اور انتظامیہ کا بیانیہ کیا ہوتا ۔ یہ اسٹوری جو اپنے اصلی رنگ میں دنیا کے سامنے آگئی اور اس کی بیوہ نے پورے کیس کو ہینڈل کرکے سرکار کو گھٹنوں پر لا دیا اور آج بھی میڈیا مشتبہ قاتل پولیس اہلکاروں کو گرفتار نہ کرنے پر سوال اٹھا رہاہے کیا یہی ماحول ہوتا۔ ایسے ہی پرائم ٹائم میں ڈبیٹ ہوتی،اکھلیش بھیا بے قرار ہو کر مفروضہ ریاض کی بیوہ کو تسلی دینے پہنچتے اور وزیر اعلیٰ اعلان کرتے کہ مجرموں کو بخشا نہیں جائے گا۔ مایاوتی ٹویٹ کرکے اظہار ہمدردی کرتیں ۔ بدقسمتی سے شاید ایسا نہیں کچھ نہ ہوتا بلکہ ( مفروضہ) ریاض کے اہل خانہ اور اس کے دوستوں کی مشکلیں کس دی جاتیں ، پھر ایک اور ہی اسٹوری پلانٹ ہوتی جو ذرائع کے حوالہ سے میڈیا میں شائع اور نشرہوتی ، حالانکہ منیش معاملہ میں بھی پولیس نے اپنا رنگ دکھایا۔ ایس ایس پی نے ان لوگوں کو مشتبہ بتایا، ان کی سرگرمیوں کی جانچ کرنے کو کہا اور اے ڈی جی لاء اینڈر آرڈر تو دوسری تھیوری لے آئے کہ منیش سے آئی ڈی مانگی تو وہ بھاگا اور بھگدڑ میں اسے چوٹ لگی ،مرگیا۔
ممکن ہے ان لوگوں کے مسلمان ہونے کی صورت میں پورا واقعہ دہشت گردی کےسلیپر سیل سے تعبیر کیا جاتا۔ تینوں مطلوبہ دہشت گرد ہوسکتے تھے ۔ جب آئی ڈی مانگی تو مزاحمت پراتر آئے اور ایک دہشت گرد اس دوران مارا گیا،جبکہ دیگر دو اس کے خطرناک ساتھی بتائے جاسکتے تھے جو سابقہ میں ہوئے دھماکوں میں مطلوب ہوتے۔ ان کی ٹریننگ پاکستان کیمپوں میں ہوئی بتائی جاتی۔ مشتبہ لٹریچر، گولہ بارود ، دو عدد ریوالور اور کچھ کارتوس کی بھی برآمد گی ہوتی۔ میڈیا اسے پولیس کی شاندار کارکردگی کہہ کر اس کی پیٹھ تھپتھپارہا ہوتا اور ریاض کی بیوہ خود کو ملزم سمجھ کر چھپی پھرتی یا میڈیا کے تیز وتند سوالوں کا جواب دینے پر مجبور ہوتی۔ دونوں دوستوں پر این ایس اے، یو اے پی اے نافذ کردیاجاتا اور عدالت سے طویل ریمانڈ لے کر ان کے دیگر ساتھیوں کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی، ممکن ہے غیر ملکی فنڈنگ کا بھی الزام لگا دیا جاتا پھر کہیں سے کوئی آواز نہ اٹھتی ان کی کمیونٹی کان د با کر دل کی تیز ہوتی دھڑکنوں کو شمار کرتی، پھر کوئی تنظیم ان کا مقدمہ لڑنے کا اعلان کرتی۔ اور وزیر اعلیٰ فرماتے کہ ہم ریاست میں ایسے کسی ریاض خاں کو سراٹھا نے نہیں دیں گے ،کچل دیں گے ۔یہ بیانیہ اکثریت کے ریڈیکل عناصر کی روح کو اندر تک سرشار کردیتا ۔ پھر نہ معاوضہ دینا پڑتا ،نہ بیوہ کو نوکری ، بلکہ اقلیتی فرقہ پر گالیاں اچھالنے کا موقع ملتا۔ بھلے ہی یہ مفروضہ پر قائم دیگر بیانیہ ہے ، لیکن ہوتا یہی ہے۔ جب بات کو منوانے کے پس پشت طاقت ہو تو وہ کمیونٹی پولٹری فارم کہلاتی ہے ۔ ہم سیاسی طور پر بے حیثیت بنا دئے گئے ہیں ۔ ہمیں سماجی طور پر حاشیہ پر پھینک دیا گیا ہے ، اس میں 95 سال کی محنت ہے ۔ سوچئے غلطی کہاں ہوئی ہے اور درست کیسے کی جائے گی۔