نئی دہلی (آر کے بیورو)
جماعت اسلامی ہند کسی فرد یا فریق نہیں بلکہ مسلم مجلس مشاورت کے ساتھ ہے ، جو اختلاف ہے وہ مل بیٹھ کر حل کرنا چاپئے نہ کہ میڈیا میں اس کی تشہیر کی جائے۔ جماعت اسلامی کے سکریٹری برائے ملی امور ملک معتصم خاں نے مشاورت کے حالیہ قضیہ اور ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں کے جماعت سے متعلق الزامات کے پس منظر میں ’روزنامہ خبریں‘ سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بات کہی۔
خاص باتیں:
مدت صدارت سے متعلق فیصلہ سپریم گائیڈنس کونسل کا ہے،کونسل کے چیئرمین مولانا سید جلال الدین عمری کی ذاتی رائے یا مشورہ نہیں، ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کا تاثر غلط ہے
جماعت اسلامی پر وعدہ خلافی کا الزام صریحاً غلط ا وربے بنیاد ہے
مشاورت کو متحرک اور فعال رہنا چاہیے،اختلافات کو مل بیٹھ کر حل کرنے ضرورت
انہوں نے کہاکہ جہاں تک سپریم گائیڈنس کونسل کے مشاورت کے عہدہ صدرسے متعلق فیصلہ کا تعلق ہے ،صدر مشاورت ودیگر ذمہ داران کونسل سے رجوع ہوئے، عدلیہ میں جومقدمہ چل رہا تھا اس کو واپس لینے اور صدر کی میقات کا تعین کے بارے میں فیصلہ کرنے کی بات تھی، کووڈ کی وجہ سے جو حاضرنہیں ہوسکے ان سے فون پر بات چیت کی گئی، تبادلہ خیال ہوا ، کچھ نے لکھ کر اپنی رائے بھیجی ۔خود ظفرالاسلام خاں کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس موضوع پر بات چیت ہوئی تبھی اختلاف سامنے آیا۔ ہو سکتا ہے فیصلہ کثرت رائے سے ہوا ہو،اتفاق رائے نہ ہو سکا ہو، لیکن یہ کہنا کہ مولانا جلال الدین عمری کی نجی وذاتی رائے ہے ، قطعی درست نہیں اور ہرطرح سے غیرمناسب ہے۔ واضح رہے مولانا عمری کونسل کے چیئرمین ہیں ۔
جہاں تک جماعت اسلامی کی وعدہ خلافی یا موقف سے انحراف کا معاملہ ہے ،جہاں بھی انتخابات ہوئے اس پر جماعت کے ارکان کو کبھی ہدایت دی جاتی ہے، کبھی ان کی صوابدید پر چھوڑ دیتی ہے ۔ یہ جماعت کا داخلی مسئلہ ہے ۔ اس پر رائے زنی کرناہرگز ٹھیک نہیں ۔ مشاورت کے الیکشن پر کبھی جماعت کی قیادت اپنی رائے سے آگاہ کرتی ہے ، کبھی نہیں کرتی۔ البتہ جو بات محمد ادیب صاحب سے متعلق کہی گئی ۔ جماعت کے ذمہ داران سے لوگ ملاقات کرتے ہیں ،اپنی بات رکھتے ہیں، اس پر غور کرنے کی بات کہی جاتی ہے۔ پھر آپس میں تبادلہ خیال ہوتاہے ، جو چیز ملی مفاد میں بہتر لگتی ہے اس پر فیصلہ ہوتا ہے، اس لئے ظفرالاسلام خاں کی ملاقات کی بات صحیح ہے،لیکن وعدہ کرنے یا کمٹمنٹ کی بات صریحاً غلط ہے ۔ غور کرنے کی بات ضرور کہی گئی تھی ۔
ایک سوال کے جواب میں ملک معتصم نے کہاکہ اختلافات ہوتے ہیں مگر ان کو بیٹھ کر حل کرنا چاہئے۔ کسی نئے متبادل کی بات مناسب نہیں لگتی اور یہ اچھی بات ہے کہ سابق صدر مشاورت نے کہا ہے کہ وہ نئے متبادل یا تقسیم کے حق میں نہیں ہیں۔ مشاورت اس افسوسناک دور سے گزر چکی ہے ، ایسا کوئی قدم اس کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اصلاح وسدھار کی گنجائش ہے۔ ہم مشاورت کو منظم،فعال، متحرک باڈی و پلیٹ فارم کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے کوشاں رہے ہیں ۔
’روز نامہ خبریں‘ کے پوچھنے پر کہ کیا جماعت ڈاکٹر صاحب اور ان کے حامیوں کی طلب کردہ میٹنگ میں شریک ہوگی یا اس کے حق میں ہے ،ان کا کہنا تھا کہ اس خط کے بعد کوئی دوسرا خط نہیں آیا ہے ۔ وہاٹس ایپ یا سوشل میڈیا سے ملنے والی اطلاعات خود ایک پرالبم ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کی طرف سے کوئی دوسری اطلاع نہیں آئی ہے ،اگر کچھ آتا ہے تو پھر اس کا جواب دیں گے۔ کیاجماعت مجتبیٰ فاروق پر کوئی ایکشن لے گئی ،جیسا کہ ڈاکٹر موصوف نے الزام لگایا ہے۔ ملک معتصم نے کہاکہ یہ فیصلہ کرنے کا اختیار توجماعت کاہے ناکہ کوئیح اور طے کرے کہ کس نے ڈسپلن شکنی کی، کس کو کیا ہدایت دی جائے، اس کاایک میکنزم ہے ۔ التبہ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مشاورت کی عاملہ وجنرل باڈی کی میٹنگیںپابندی کے ساتھ ہوں اورمشاورت متحرک وفعال نظر آئے ۔
اختلاف اچھی چیز ہے بشرطیکہ صحت مند ہو لیکن افسوس ہمارے یہاں اختلافات صحت مند نہیں۔ اسی طرح اتفاق بھی اچھی چیز ہے بشرطیکہ "متحرک” ہو لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں "جامد” اتفاق پر زور دیا جاتا ہے۔
اب ایسے میں کس پر رویا جائے اور کس کو سمجھایا جائے!
یہ صورتحال کیوں ہے! اس سے متعلقین اچھی طرح باخبر ہیں لیکن محدود مفادات سے اُن کی تشفی بخش وابستگی انہیں وسیع النظری سے کام لینے نہیں دیتی۔
وہ عام آدمی کی بہبود کی باتوں کو بس ہونٹوں پر رقصاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ عام آدمی کی بہبود سے خواص کی وہ پہچان ختم ہو جائے گی جسے "بظاہر” وہ انجوائے کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ ویسے "بباطن” دلوں کا حال خدا ہی بہتر جانتا ہے۔