بنگلور :(ایجنسی)
حجاب معاملے پر کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی بنچ نے 11 دنوں تک جاری سماعت کے دوران حکومت کو سخت پھٹکار لگائی۔ بومئی سرکار کے جی او پر عدالت نے کہا کہ اگر کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ادارے میں حجاب پہننا جرم نہیں ہے تو آپ کیا کریں گے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسی صورتحال پیدا ہونے پر ہی کچھ کہہ سکتے ہیں۔
دراصل حجاب کے معاملے میں حکومت کرناٹک نے ایک جی او جاری کرکے تمام اختیارات کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی کو سونپ دیے ہیں۔ حکومت کے مطابق کمیٹی جو فیصلہ کرے گی وہ یونیورسل ہوگا۔ چیف جسٹس رتوراج اوستھی، جسٹس کرشنا دیکشت اور جسٹس اے ایم قاضی کی بنچ نے پوچھا کہ کیا حکومت خود سے کنارہ کشی کر رہی ہے۔ وہ سب کچھ کمیٹیوں پر نہیں چھوڑ سکتی۔
خیال رہے کہ حجاب معاملے کی سماعت کے پہلے ہی دن ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا تھا کہ اسکولوں، کالجوں میں کسی بھی طرح سے مذہبی لباس پہننا ممنوع ہے۔ مسلم طالبات نے دلیل دی کہ اسلام میں حجاب پہننا ان کے لیے لازمی ہے۔ جبکہ دوسرا فریق ان کے دعوے کی مخالفت کر رہا ہے۔
چیف جسٹس معاملے کی شروعات سے ہی سخت موقف اختیار کئے ہوئے تھے۔ پہلے ہی دن انہوں نے درخواست گزاروں سے کہا کہ آپ لوگ اس طرح کے مذہبی جھنجھٹ میں نہ پڑیں۔ ہم سب کو ایسا کرنے سے روک رہے ہیں۔ کالج کا ماحول الگ ہوتا ہے۔ وہاں مذہبی لباس پر جھگڑا سراسر غلط ہے۔ مسلم طالبات کی طرف سے ایڈووکیٹ دیودت کامت نے بحث کی۔
ہائی کورٹ نے کامت سے یہ بھی پوچھا کہ کیا یہ عمل درست ہے؟ انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں ڈریس کوڈ ہے۔ وہاں ایسے کپڑے پہننا کس حد تک ٹھیک ہے؟ عدالت نے اے جی پربھولنگا نوادگی سے سوال کیا کہ جلد بازی میں جی او جاری کرنے کے پیچھے حکومت کا کیا ارادہ تھا۔
جسٹس کرشنا نے سی ڈی سی میں ایم ایل اے کی شمولیت پر اٹھائے گئے سوال پر تنقید کی۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا ایم ایل اے کو سی ڈی سی کا رکن نہیں ہونا چاہئے؟ وہ آئین کو سمجھتا اور جانتا ہے۔ ویسے بھی ایم ایل اے ڈیولپمنٹ کمیٹی کے بہت سے ممبران میں سے ایک ہے۔ انہوں نے دیو دت کامت سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کا کوئی فیصلہ ہے جس میں کہا گیا ہو کہ کوئی عوامی نمائندہ ایسی کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی کا رکن نہیں بن سکتا۔