لکھنؤ: ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت کی جانب سے پسماندہ افراد کے لیے ریزرویشن طے کرنے کے بعد ہی بلدیاتی الیکشن کرانے کے فیصلے سے واضح ہو گیا ہے کہ اس میں وقت لگے گا۔ حکومت کو کمیشن قائم کرنا ہوگا اور کمیشن کی نگرانی میں ہی او بی سی کو ریزرویشن دینے کے عمل پر عمل کرنا ہوگا۔
دوسری جانب حکومت فروری میں عالمی سرمایہ کار سمٹ کا انعقاد کر رہی ہے۔ یوپی سمیت مختلف بورڈز کے امتحانات بھی فروری مارچ میں ہونے والے ہیں۔ ایسے میں مانا جا رہا ہے کہ حکومت کے لیے اپریل یا مئی سے پہلے انتخابات کرانا ممکن نہیں ہے۔درحقیقت، 2017 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے لیے نوٹیفکیشن 27 اکتوبر کو جاری کیا گیا تھا ، ووٹوں کی گنتی یکم دسمبر کو ہونی تھی۔
اس تناظر میں حکومت کو وقت پر انتخابات کرانے کے لیے اکتوبر میں ہی نوٹیفکیشن جاری کرنا تھا لیکن محکمہ شہری ترقیات کی ناقص تیاری کے باعث انتخابی عمل تاخیر سے شروع ہوا۔ وارڈز اور سیٹوں کا ریزرویشن دسمبر میں ہوا تھا۔ 5 دسمبر کو میئر اور چئیرمین کی نشستوں کا مجوزہ ریزرویشن جاری کی گیا۔ شہری ترقیات کا محکمہ مان رہا تھا کہ وہ 14 یا 15 دسمبر تک اس پروگرام کو الیکشن کمیشن کے حوالے کر دے گا، لیکن معاملہ ہائی کورٹ میں پھنس گیا۔ریپڈ سروے سے لے کر ریزرویشن نوٹیفکیشن جاری کرنے تک کئی سطحوں پر خامیاں تھیں۔?
ذرائع کے مطابق بلدیاتی انتخابات میں ہر بار مقامی اداروں کا اہم کردار ہوتا ہے لیکن اس بار ڈائریکٹوریٹ کو ریپڈ سروے سے لے کر ریزرویشن طے کرنے تک کے عمل سے دور رکھا گیا جو کہ بہت بڑی غلطی ہے۔ اس کام میں تجربہ کاروں کی جگہ نئے افسران لگائے گئے۔محکمہ شہری ترقیات نے سال 2010 میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر بھی توجہ نہیں دی، جس میں واضح ہدایات دی گئی تھیں کہ انتخابی عمل شروع کرنے سے پہلے کمیشن بنا کر او بی سی کے لیے وارڈز اور سیٹیں ریزرو کر دی جائیں۔
محکمہ نے نئے بلدیاتی اداروں میں تیزی سے سروے کرتے ہوئے پسماندہ ذاتوں کی گنتی کی اور ریزرویشن طے کیا۔ پرانی باڈیز میں ریپڈ سروے نہیں کیا گیا۔