راغب خاں
شروعاتی دن تھے کسی اخبار سے کوئی تعلق نہیں رہا تھا‘ کبھی نہ کام سے اور نہ ماحول سے‘ دونوں باتوں کی ناواقفیت کے باعث بہت سے کام ایک ساتھ میرے سر ہو گئے تھے اور پیچھے نہ ہٹنا یا منع نہ کرنا اپنی ایک بری عادت تھی تو اکثر مشکل میں پھنس جاتا تھا۔ تبھی ایک انتہائی محبّت اور شفقت بھری آواز آتی تھی،کیا بات ہے بابو! کہاں پھنس گئے ہو ? ….. اس میں کون سی مشکل ہے، لاؤ ہم کرادیتے ہیں۔
اور پھر کیسا بھی کام ہو، ہوجاتا تھا،ان کے کیبن میں ہر خاص و عام بے تکلّفی سے اپنے کسی نہ کسی کام کے لیے کبھی بھی آسکتا تھا، کسی کو لیوس ایڈجسٹ کرانی ہے، کسی کا فارم بھرنا ہے، کسی کا ٹکٹ نکالنا ہے، یا کسی کو صرف میچ کا اسکور ہی دیکھنا ہے، بس’کنڈی نا خڑکاؤ بابو،سیدھا اندر آؤ بابو‘ عجیب برداشت اور دوسروں کے لیے کام آنے کا جذبہ تھا عابدی صاحب میں۔
اخبار کا کوئی کام ایسا نہ تھا جو ان سے ہو نہ سکتا ہو، اتنی صلاحیتیں میں نے اپنی زندگی میں ایک ساتھ کسی آدمی میں نہیں دیکھیں۔ سچن کے ریٹائرمنٹ کا ٹائم تھا ان کے کیبن میں بیٹھا بات کر رہا تھا ان سے تو بولے بابو جتنا ٹائم سچن کو کرکٹ کھیلتے ہوئے ہو گیا، اتنا ہی ہمیں یہاں کام کرتے ہوئے ہو گیا۔ ٹیکنالوجی میں وقت کے ساتھ اپ ڈیٹ رہنا پسند کرتے تھے۔ ایک بار فوٹوشاپ کی ایک چھوٹی سی کمانڈ تھی میں نے کسی کو بتائی، آفس میں وہ ایک سے دوسری ہوتی ہوئی ان کے پاس پہنچ گئی تو مجھے بلایا اور بولے، آؤ بابو تمہیں ایک چیز دکھائیں، میں نے دیکھ کر کہا سر یہ کل میںنے ان صاحب کو بتائی تھی، تو بولے اوہ ! اچھا! یہ تمہارے چاول ہیں جو بریانی بن کر تمہارے پاس پہنچے ہیں۔ کافی دن سے سوچ رہا تھا ایک بار جاؤںگا سہارا اور آپ سے ملاقات کر کےآؤن گا، لیکن افسوس یہ ہو نہ سکا آہ!
بہت یاد آئیں آپ سر نفیس عابدی صاحب ایک اسکول تھے، ایک دور تھے ،وہ اخبار تھا جو اب بند ہو گیا۔