کلیم الحفیظ-نئی دہلی
جرم کرنا اور گناہ سرزد ہونا انسان کی فطرت اور سرشت میں شامل ہے۔انسان ہی ایک ایسی مخلوق ہے جو عمل کرنے میں بڑی حد تک آزاد ہے۔اسی لیے صرف انسانی سماج کو ہی بندشوں میں قید رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔اسی سماج کے لیے قانون بنتے ہیں۔یہی وہ گروہ ہے جسے منظم رکھنے اور قابو میں رکھنے کے لیے پولس اور فوج بنائی جاتی ہے۔اس کے باوجود بھی انسان شیطانی حرکتوں سے باز نہیں آتا اور ایسی شرمناک حرکت کردیتا ہے کہ انسانیت شرمسار ہوجاتی ہے۔جانوروں کے کسی سماج میں ایسی گھنائونی حرکتیں نہیں ہوتیں جیسی ہمارے مہذب انسانی سماج ہورہی ہیں۔کسی معصوم بچی کے ساتھ کئی کئی درندوں کا زنا کرنا،پھر اسے زندہ جلا کر ماردینا،کیا کسی جانورکے سماج میں کبھی اور کہیں ایسا ہوا ہے۔کسی بھیڑ،بکری،گائے،بھینس کے ساتھ اس کے نرہم جنسوںنے اجتماعی زنا بالجبر کا ارتکاب کیا ہے۔یہ تو خیر وہ جانور ہیں جو ہمارے ساتھ ہمارے گھروں میں رہتے ہیں،لیکن وہ جانور جو جنگلوں میں کھلے عام رہتے ہیں کیا وہاں بھی کوئی ایسا حادثہ ہوا ہے جس پر انسانوں کو شرمسار ہونا پڑا ہو۔ بھارت کایہ کیسا انسانی سماج ہے جہاں آئے دن انسانیت کا سر شرم سے جھکتا ہے؟کیا یہی بھارت کی پراچین سبھیتا ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں؟کیا یہی ہندو راشٹر کی تمہید ہے ؟آخر ماتھے پر تلک لگانے والوں کے ماتھے پر کلنک کیسے لگ جاتا ہے؟
دراصل گناہ اور جرم جیسا کہ میں نے عرض کیا انسانی فطرت میں ہے اوراس کو کنٹرول کرنے کے لیے ہی پولس،فوج،قانون،عدالت ہے، ہر مذہب میںجنت،دوزخ،نیکی ،بدی،سزا اور جزا کا تصور ہے۔مگر جب قانون نافذ کرنے والے ادارے متعصب ہو جائیں اور انسانوں کے درمیان بھید بھائو کرنے لگیں تو جرائم پر قابو پانا ناممکن ہوجاتا ہے۔جب انصاف امیرو غریب اور حاکم و محکوم میں فرق کرنے لگے تو مجرموں کے حوصلے بلند ہونے لگتے ہیں۔سماجی تفریق کو اگر مذہب کی سند حاصل ہوتو معاملہ زیادہ ہی سنگین ہوجاتا ہے ۔جیسا کہ ہندو دھرم کی کتابوں سے ظاہر ہوتا ہے ۔منو اسمرتی کے قوانین میں شودر اور برہمن کے لیے ایک جیسے گناہ پر الگ الگ سزائیں ہیں ،بلکہ برہمن اور اعلیٰ ذات کے لیے بہت سے جرائم پر سزائیں ہی نہیں ہیں ۔دھرم کے نام پر یہ غیر مساویانہ خیالات آج بھی کہیں نہ کہیںسماج میں جرائم میں اضافے کا سبب ہیں۔اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ملک میں کسی بھی حصے میں زنا بالجبر اور اس کے بعد قتل کردینے یا جلادینے کے واقعات ہوتے ہیں ان میں ننانوے فیصد متاثرین کا تعلق دلت اور شودر طبقات سے ہی ہوتا ہے یا وہ مسلمان ہوتا ہے۔خواہ وہ یوپی ہو،بہار ہو یا دلی ہو،ظلم کرنے والا ہمیشہ ہی طاقت ور قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے خواہ وہ عددی قوت ہو یا معاشی و سیاسی۔مجھے ڈر ہے کہ آئندہ اس طرح کے واقعات میں کہیں اور اضافہ نہ ہو جائے کیوں کہ ملک کا حکمراں طبقہ منو اسمرتی کو نافذکرنا چاہتاہے۔
زنا بالجبر کے جرائم کے واقعات ملک بھر میں ہر سال لاکھوں ہوتے ہیں،ان میں سے بیشتر کی پولس رپورٹ بھی درج نہیں ہوتی،حالانکہ درج شدہ معاملات میں دس فیصد جھوٹے اور فرضی بھی ہوتے ہیں جو کسی دشمنی کے سبب لگائے جاتے ہیں ،اس کے باوجود اچھی خاصی تعداد حقیقی واقعات کی بھی ہے۔اخبارات کی سرخیوں میں صرف وہی واقعات آتے ہیں جو انتہائی شرمناک ہوتے ہیں اور جہاں مجرمین سفاکی پر اتر آتے ہیں۔پولس کا کردار بھی ان واقعات کو لے کر مشکوک ہے۔پہلے تو رپورٹ ہی درج نہیں کی جاتی اس لیے کہ مظلوم کمزور ہوتا ہے ا ور ظالم طاقت ورہوتا ہے۔ہمارے دیش کی پولس کا کرپشن میں اول درجے کا ریکارڈ ہے جسے کسی اور دیش کی پولس چاہ کر بھی نہیں توڑ سکتی ،ایسے میں ظالم ،مظلوم کو پولس کے دروازے پر پہنچنے ہی نہیں دیتا،کوئی پہنچ جائے تو پولس کی خاکی وردی اسے خوف زدہ کردیتی ہے۔اگر رپورٹ درج بھی کرلی جائے تو اس میں اتنی کمزوریاں چھوڑ دی جاتی ہیں کہ عدالت میں اس کی ہوا نکل جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک کی عوام کاپولس اور عدلیہ پرسے اطمینان اٹھتاجا رہاہے ۔
یہ بات بھی جگ ظاہر ہے کہ زیادہ تر معاملات میںمجرمین کو سیاسی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔اس لیے کہ ہر طاقت ور کسی نہ کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہے،اور آج کل سیاسی پارٹیاں کچھ کریں یا نہ کریں مجرمین کی پشت پناہی ضرور کرتی ہیں۔جب بھی کوئی جرم ہوتا ہے ،مظلوم پولس کی سمت بھاگتا ہے اور مجرم سیاسی آقائوں کی طرف ،مظلوم کے پولس اسٹیشن پہنچنے سے پہلے ہی کسی نہ کسی نیتا کا فون پولس چوکی میں پہنچ جاتا ہے۔مجرمین کی پشت پناہی سیاست کی مجبوری ہے اس لیے کہ یہی باہوبلی مجرمین ووٹ دلواتے ہیں۔گائوں کے پردھان سے لے کر ملک کے پردھان منتری تک کا ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ وہ مجرمین کی حمایت کریں۔گائوں کا پردھان ،جواریوں ،چھوٹے سٹہ بازوں،زنا خوروں کی حمایت میں چلا آتا ہے تو ملک کا پردھان منتری نیرو مودی اور وجے مالیہ کے راہ فرار میں سہولت پیدا کرتاہے۔ہونے کو تو مظلوم کے ساتھ بھی سیاسی لیڈر ہوتے ہیں مگر وہ حزب اختلاف سے تعلق رکھتے ہیں ،ان کے پیش نظر بھی مجرمین کو سزا دلوانا کم اپنی سیاست چمکانا زیادہ ہوتا ہے۔ایسے میں اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ متاثرین کو کچھ مالی مدد اورکچھ جھوٹی ہمدردیاں مل جاتی ہیں مگر انصاف نہیں ملتا۔
ملک کا عدالتی سسٹم بھی جرائم میں اضافہ کا سبب ہے۔انصاف میں تاخیر ظلم میں اضافہ ہی کرتی ہے۔کسی بھی معاملے کا فیصلہ کئی برسوں میں جاکر ہوتا ہے۔ان حالات میں اکثر و بیشتر ظالم ڈرا دھمکا کر صلح پر مجبور کردیتا ہے۔مظلوم کو گواہ بھی میسر نہیں آتے کیوں کہ کوئی شریف آدمی گواہی کے چکر میں نہیں پڑتا ،کہیں کوئی جوش میں آکر گواہ بن بھی جاتا ہے تو عدالت میں جاکر ٹوٹ جاتا ہے یا ظالم کی دھمکیوں میں آکر مکر جاتا ہے ،ظالم کے لیے جھوٹے گواہ ہر عدالت کے باہر اسی طرح ملتے ہیںجس طرح بڑے اسپتالوں کے باہر خون بیچنے والے۔انصاف خریدا بھی جاتا ہے۔عدالتی احاطے میں دلال انصاف کی بولی لگاتے ہوئے مل جائیں گے۔
اس کا حل کیا ہے ؟اس سوال کا جواب ذرا مشکل ہے۔جس طرح پانی کبھی نیچے سے اوپر کی سمت نہیں بہتا اسی طرح سماج میں اچھائی برائی کا معاملہ ہے ۔عربی کی کہاوت ہے کہ لوگ اپنے بادشاہ کے دین پر ہوتے ہیں ۔اس لیے سب سے پہلے حکمراں طبقے کو خود سے انصاف کرنا ہوگا۔اس کے بعد سیاست دانوں کو مجرمین سے مدد لینا چھوڑنا ہوگی تاکہ انھیں ان کی مدد پر مجبور نہ ہونا پڑے۔اگر مجرمیں کو سیاسی پشت پناہی حاصل نہ ہوتو ان کے حوصلے پست ہوجائیں گے ،پولس کو بھی اپنا کام کرنے میں آسانی ہوگی۔بیشتر معاملات میں حلقے کے داروغہ کو لائن حاضر کردیا جاتا ہے یا اس کا تبادلہ کردیا جاتا ہے ۔مگر اس حلقے کے ایم ایل اے اور ایم پی کی برخواستگی کی آواز کہیں سے نہیں اٹھتی ،کیوں کہ آواز اٹھانے والوں کا تعلق بھی سیاست سے ہوتا ہے۔ہر تھانے سے ایم ایل اے کا حصہ مقر ر ہو تو سیاست کو کون جواب دہ بنا سکتا ہے ۔ ملک کے قوانین میں اگر یہ شق شامل کردی جائے کہ جس حلقۂ انتخاب میں جرائم میں اضافہ ہوگا یا گڑیا بالمیکی جیسے حادثات ہوں گے تو اس حلقۂ انتخاب کے نمائندے کو نہ صرف مستعفی ہونا ہوگا بلکہ وہ آئندہ بھی انتخاب نہیں لڑسکے گا۔ملک کی پولس کی تو ذمہ داری ہے کہ وہ چوکیداری کرے مگر ملک کے چوکیدار کی ذمہ داری بھی طے ہونا چاہئے۔
مجرم ہوں میں اگر تو گنہ گار تم بھی ہو
اے لیڈران قوم خطا کار تم بھی ہو