نئی دہلی: (ایجنسی)
حجاب تنازع کا تعلق پسند سے نہیں، بلکہ تعلیمی اداروں کے تقدس اور مساوات سے ہے، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے حمایت یافتہ انگریزی ہفتہ وار آرگنائزر نے پیر کو ایک اداریہ میں اظہار خیال کیا، جس میں اس نے ’مذہبی تعصب‘ کو فروغ دینے پر جاری بحث کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
آرگنائزر کے ایڈیٹر پرفل کیتکر کے ذریعہ لکھے گئے اداریہ میں کہا گیا کہ اگرچہ ‘حجاب اور نقاب دونوں کو صنفی انصاف کے تناظر میں ایک جابرانہ اور رجعت پسند معاشرے کی علامت سمجھا جاتا ہے، لیکن ’بدنام‘ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی ایک توسیع شدہ کیمپس فرنٹ آف انڈیا طالب علمی کی زندگی سے ہی ایک الگ مذہبی شناخت کو فروغ دینا چاہتی ہے۔
اس میں مزید کہا گیا، ’مردوں کے زیر کنٹرول بنیاد پرست تنظیم کی طرف سے مذہبی تعصب کے بیج بونے کی کسی بھی کوشش کی مخالفت کی جانی چاہیے، اور اسے مکمل طور پر مسترد کر دینا چاہیے۔‘
کیتکر نے ایک ’خطرناک رجحان‘ کی حمایت کرنے پر ملک کے ’لبرلز‘ پر بھی تنقید کی، اور ساتھ ہی اس پر بھی روشنی ڈالی کہ زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں عوامی مقامات پر حجاب پر پابندی ہے ۔
اداریہ میں کہا گیا کہ ’بہت سے اسلامی ممالک میں، مولویوں کے ذریعہ اسے تھوپے جانےکےخلاف خواتین گروپوں کی جانب سے کوئی تحریک نہیں دیکھا گیا۔ زیادہ تر ترقی یافتہ ممال نے عوامی مقامات میں حجاب پر پابندی لگا دی ہے اوراسے تعصب کو فروغ دینے کے مترادف بتایا ہے ۔ اس لیے وہ ’لبرلز‘ جو ہر ہندو روایت اور تہوار کا مذاق اڑانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، ان کا حجاب کے حق میں نکلنا سب سے خطرناک رجحان ہے۔
یہ اداریہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب حجاب کو لے کر بڑا تنازع ہوا ہے اور مسلم طالبات مطالبہ کر رہی ہیں کہ انہیں کرناٹک کے تعلیمی اداروں کے اندر اسے پہننے کی اجازت دی جائے۔
سیاستدان اس مسئلے کا فائدہ اٹھا رہے ہیں
اس معاملے پر کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی واڈرا کے ریمارکس کا حوالہ دیتے ہوئے اداریہ میں کہا گیا کہ سیاسی لیڈروں کا ارادہ سیاسی فائدے کے لیے ’مسئلہ کا استحصال‘ کرنا ہے۔
اداریہ میں کہا گیا ہے، ’یہاں تک کہ سیاسی رہنما جو سیاسی فائدے کے لیے اس مسئلے کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، وہ بھی اسے جینز یا بکنی پہننے کے برابر سمجھتے ہیں۔‘ یہ دلیل سب سے ہلکی ہے کیونکہ یہ بحث خواتین کے انتخاب کے بارے میں نہیں بلکہ تعلیمی ادارے میں داخلے کے بارے میں ہے۔
اداریہ میں تعلیم پر شناخت کی حمایت کرنے پر ’ممتاز مشہور مسلم خواتین‘ پر بھی تنقید کی گئی۔
زیادہ تر نامور مشہور مسلم خواتین، جنہوں نے اس رجعت پسندانہ طرز عمل سے چھٹکارا پانے کا فیصلہ کیا ہے، اب تعلیم سے زیادہ شناخت کو ترجیح دے رہی ہیں، یہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ عوامی مقامات پر ان کی ظاہری شکل خواتین کی ترجیح ہے۔ طلباء میں مساوات اور نظم و ضبط کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ہر تعلیمی ادارے کا ڈریس کوڈ ہوتا ہے۔
پی ایف آئی اور ’شناخت کا دعویٰ‘
اداریہ کے مطابق کرناٹک میں جاری احتجاج کے پیچھے اصل وجہ ’شناخت‘ کا دعویٰ ہے۔ اس میں کہا گیا ، ’ایک مرد کے غلبہ والے اور سمجھے جانے والے توحید پرست مذہب کی شناخت کا دعویٰ اس تحریک کے پیچھے بنیادی ایجنڈا ہے – مٹھی بھر لڑکیاں جو حجاب کو اپنا حق سمجھ کر مطالبہ کر رہی ہیں وہ صرف ایک آلہ کار ہیں ۔‘
اداریہ میں مزید کہا گیا ہے کہ حملے کے پیچھے اکسانے والا کیمپس فرنٹ آف انڈیا ہے۔
انہوں نے کہا، ’اس پوری تحریک کے لیے سب سے نمایاں اکسانے والے کیمپس فرنٹ آف انڈیا ہیں، جو بدنام زمانہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کا ایک توسیعی ونگ ہے، جسے دہلی فسادات کے مقدمات میں سزا سنائی گئی تھی۔ یہ ادارہ طالب علمی کی زندگی سے ہی ایک الگ مذہبی شناخت کو فروغ دینا چاہتا ہے۔
کرناٹک کی ’لڑائی‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے اداریہ میں کہا گیا ہے کہ احتجاج کے دوران ’کشمیر جیسا پتھراؤ‘ ہوا تھا۔
اس میں کہا گیا، ’لڑائی تعلیمی کمپلیکس سے شروع ہوئی اور اب عدالت تک پہنچ گئی ہے۔ ‘’سیکولر کیمپ‘ کے بہت سے معروف چہرے، اسلام پسندوں سے لے کر لبرلز تک، سینئر سیکنڈری اسکول کی لڑکیوں کی حمایت میں سامنے آئے ہیں جو تعلیم کے دوران حجاب پہننے کا حق مانگ رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، ‘ہندوستان کے کئی حصوں میں ایسے پوسٹر سامنے آئے ہیں جن میں کتاب کے اوپر حجاب رکھا گیا تھا۔ اس کے جواب میں کرناٹک کے اسکولوں میں برابری کا مطالبہ کرنے والی ہندو طالبات نے بھی بھگوا شالوں کے ساتھ مظاہرہ کیا۔ ان مظاہروں اور جوابی مظاہروں میں تشدد اور کشمیر جیسا پتھراؤ بھی دیکھا گیا۔
مذہب اور قانون
اداریہ میں اس تنازع سے پہلے ملک میں حجاب کے موضوع پر چل رہے قانونی معاملات پر بھی روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی۔
انہوں نے کہا،’اس سے پہلے ایسے ہی ایک معاملے میں، کیرالہ ہائی کورٹ نے دسمبر 2018 میں، جسٹس محمد مشتاق کی طرف سے سنائے گئے ایک فیصلے میں، واضح کیا تھا کہ ‘درخواست گزار ادارے کے زیادہ سے زیادہ اختیار پر اپنے ذاتی حقوق کو مسلط نہیں کر سکتے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ کو فیصلہ کرنا ہے کہ آیا درخواست گزاروں کو ہیڈ اسکارف اور پوری آستین والی شرٹ پہن کر کلاسوں میں بیٹھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔‘
اس میں مزید کہا گیا، ‘جیسا کہ کانگریس پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل کی دلیل ہے، حجاب کے حامیوں کی طرف سے پیش ہونا، اور حدیث کی متعدد تشریحات (اسلامی قانون اور اخلاقیات کا ایک بڑا ماخذ) کا حوالہ دیتے ہوئے، یہ تمام مذاہب میں سے ایک سے متعلق ہے۔ حصہ وکیل نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ’سر نہ ڈھانپنے اور لمبا لباس نہ پہننے کی مقررہ سزا‘ کا حوالہ دیا۔ کیا سزا کے خوف کا تعلق بھی پسند سے ہے ؟‘