تحریر : مسعود جاوید
نوکر شاہی…. مرکزی حکومت کے تحت کام کرنے والے اعلیٰ عہدیداران..یونین پبلک سروس کمیشن وزارتوں میں سکریٹری ، بیرون ملک سفیر اور قنصل اور ضلعوں میں ڈی ایم؍ ڈی سی اور ،ایس پی کے لئے مقابلہ جاتی امتحانات کا انعقاد کرتا ہے۔ ملی تنظیموں اور علی العموم مسلمانوں کے لئے سرکاری ملازمتیں ترجیحات کیوں نہیں رہیں؟ تعلیمی پسماندگی یا موٹیویشن کا فقدان ؟
سچر کمیٹی رپورٹ نے ملک کو مرکزی حکومت کو اور ریاستی حکومتوں کو مسلمانوں کی حقیقی صورتحال سے جہاں واقف کرایا وہیں مسلمانوں کی ملی تنظیموں کو خبردار کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومتوں نے سچر کمیٹی کی سفارشات پر خاطر خواہ ایکشن نہیں لیا اور ملی تنظیموں کے سربراہان بھی اپنی روایتی قیادت کے ’’ناقابل ترمیم اغراض و مقاصد‘‘ کے ساتھ مطمئن رہے۔ مرحوم سید شہاب الدین مسلم انڈیا کے توسط سے اس طرح کے اعداد و شمار شائع کر کے حکومت، اپوزیشن اور ان متعصب افراد کو جو ہر وقت کانگریس کو مسلم اپیزمنت مسلم منہ بھرائی کا طعنہ دیتے تھے، ان کو دستاویزات اور اعداد و شمار کے ذریعے آئینہ دیکھاتے رہتے تھے کہ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروسز میں مسلمانوں کی شراکت ایک سے ڈیڑھ فیصد کیوں ہے ؟ ان کی آبادی کے لحاظ سے سرکاری ملازمتوں میں شراکت کیوں نہیں ہے وغیرہ وغیرہ…. مگر حکومت کی کسی خامی کے خلاف شکایت درج کرانے سے آگے کمیونٹی سطح پر بیوروکریسی مرکزی اور ریاستی سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی شراکت بڑھانے کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
2006 میں سچر کمیٹی رپورٹ شائع ہوئی جس نے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں بالخصوص مسلمانوں کی ہمدرد سمجھی جانے والی پارٹیوں اور حکومتوں کو اعداد و شمار اور سروے کی بنیاد پر بتا دیا کہ مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی زیادہ ابتر ہے پھر بھی ملی قیادت نے سرکاری ملازمت میں آبادی کے تناسب کے لحاظ سے حصہ داری حاصل کرنے کی کوشش کو قابل اعتناء نہیں سمجھا۔ اس نے اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار، پرسنل لاء اور فرقہ وارانہ فسادات جیسے چند موضوعات کو اوڑھنا بچھونا بنا کر رکھا۔
پچھلے چند سالوں کے دوران نام نہاد ملی قیادت سے ہٹ کر بعض مسلم دانشوروں نے مسلمانوں کی نوکر شاہی میں شراکت بڑھانے کے لئے کوچنگ سنٹرز قائم کیا جس کا نتیجہ ہے کہ آزادی کے بعد سے مسلمانوں کی تعداد کے اعتبار سے 2.5% ڈھائی فیصد مرکزی نوکر شاہی میں جہاں شراکت ہوتی تھی، مسلمانوں نے کسی حد تک تعلیمی بیداری کی طرف توجہ دی اور بہت حد تک ان کوچنگ سنٹرز کی بدولت مسلمانوں کی شرح شراکت 2.5% ڈھائی فیصد سے بڑھ کر چار فیصد 4% اور اس سال 5% پانچ فیصد تک پہنچی۔ 2012 میں 30 منتخب ہوئے تھے، 2013 میں 34 ، 2014 میں 38 اور 2015 میں 36
اس کے بعد مسلم طلباء وطالبات کی مزید دلچسپی کا حوصلہ بخش نتیجہ سامنے آیا کہ 2016 میں 50 کامیاب ہوئے اور 2017 میں بھی 50 کامیاب ہوئے۔ 2016 کی ایک اور حوصلہ افزا کامیابی یہ تھی کہ 2016 میں 100 Top میں 10 مسلم تھے جبکہ اس سال صرف 1 ہے۔
حیرت ہے کہ ملی تنظیموں کے سربراہان نے سرکاری ملازمتوں بیوروکریسی ہی نہیں فورتھ گریڈ کے لئے بھی مسلمانوں کو موٹیویٹ اور تیار نہیں کئے !
یونین پبلک سروس کمیشن ہر سال نوکر شاہی کے لئے مقابلہ جاتی امتحان سول سروس ایگزامینشن منعقد کرتا ہے جس میں کامیاب ہونے والے آئی اے ایس، (انڈین ایڈمنسٹریٹو سروسز)آئی ایف ایس( انڈین فارن سروسز) اور آئی پی ایس ( انڈین پولیس سروسز) وغیرہ کے لئے منتخب کئے جاتے ہیں۔
2020 میں ابتدائی امتحانات (Prelims) میں شریک ہونے کے لئے درخواست دہندگان کی تعداد 10,40,000، تھی جس میں سے 10,564 شرکاء فائنل، جو جنوری 2021 میں منعقد ہوا، کے لئے اہل قرار دیئے گئے ان میں سے 2053 شرکاء پرسنالٹی ٹیسٹ (انٹرویو) کے لئے بلائے گئے جن میں سے بالآخر 761 شرکاء منتخب ہوئے ۔ ان میں منتخب ہونے والے مسلمان یہ ہیں :
Rank. Name S.No.
1-صدف چودھری23-
2-فیضان احمد 58-
3- ذینہ دستگیر -63
4- منظر حسین- 125
5- شاہد احمد- 129
6-شہنشاہ- 142
7- محمد عاقب- 203
8- شہناز- 217
9- وسیم احمد- 225
10- بشری بانو- 234
11- محمد حارث- 270
13- احمد ایچ چودھری -283
14- سارہ اشرف- 316
15- محب اللہ انصاری- 389
16-انیس -403
17 – زیبا خان- 423
18 -فیصل رضا- 447
-19 ایس محمد یعقوب- 450
20 -سبیل پواکندل- 470
21 -ریحان کھتری- 478
22 – محمد جاوید- 493
-23 الطاف محمد شیخ- 545
-24 خان عاصم کفایت- 558
25 -سید زاہد علی- 569
26 -شاکر احمد خان- 583
27 -محمد ریسوین- 589
-28 محمد شاہد- 597
-29 اقبال رسول دار- 611
-30 عامر بشیر- 625
-31 ماجد اقبال خان- 738