نئی دہلی :
سپریم کورٹ نے بدھ کو اترپردیش سرکار کو صحافی صدیق کپن کو اسپتال میں شفٹ کرنے کا حکم دیا ہے۔ کورٹ نے کہاکہ کپن کو دہلی ایمس یا پھر کسی دیگر اسپتال میں علاج کے لیے بھرتی کرائے ،حالانکہ صدیق کو ضمانت کے لیے موزوں عدالت میں اپیل کرنی ہوگی۔ کپن کو گزشتہ سال ہاتھرس جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا، جہاں ایک دلت لڑکی کی مبینہ اجتماعی عصمت دری کے بعد موت ہوگئی تھی۔ عدالت کے حکم پر سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ آپ دہلی کے اسپتال کے لئے آرڈر کریں ، ہمیں ایک مریض کی جگہ کپن کو ایڈجسٹ کرنا ہوگا ، اس کے لئے میں اہل نہیں ہوںلہٰذا آپ حکم کریں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ خود یہ انتظام کریں۔
کیرل یونین آف ورکنگ جرنلسٹس (کے یو ڈبلیو جے) کا الزام ہے کہ کپن کو اسپتال میں ان کے بیڈ سے زنجیر سے باندھا کر رکھا گیا تھا۔ کپن کو باتھ روم میں گرنے کے بعد اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا اور بعد میں کووڈ-19 سے متاثر بھی پائے گئے۔ اترپردیش حکومت نے کپن کو زنجیر سے باندھنے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ کپن کی کورونا رپورٹ منفی آئی ہے۔ ایس جی تشار مہتا نے کہا کہ کپن کے پاس سے ایک اخبار تیجس کا آئی ڈی کارڈ ملا ہے جس کا انہیں صحافی بتایا جارہا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اخبار تین سال پہلے بند ہوگیا تھا ۔ کپن فرضی شناختی کارڈ لے کرہاتھرس جار ہا تھا ۔ انہوں نے کہاکہ تیجس پی ایف آئی کا اہم اخبار ہے۔ اس کے سیمی کے ساتھ بھی رشتے ہیں۔
سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل نے کہا کہ تیجس شدت پسند نظریے کو پناہ دیتا ہے۔ یہ وہ اخبار ہے جو اسامہ بن لادن کو شہید بتاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کپن پی ایف آئی کا ایک سرگرم ممبر ہے۔ وہ فون اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پی ایف آئی کے ممبروں کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور ملک بھر میں اس کے رابطے ہیں۔