اجین :(ایجنسی)
بنارس کیگیان واپی مسجد تنازع کی طرز پر مدھیہ پردیش کے اجین میں بھی قدیم مسجد کے اندر گنیش اور شیو کی مورتیوں کے ہونے کے دعویٰ کو لے کر تنازع شروع ہوگیا ہے۔ مہا منڈلیشور اتلیشانند مہاراج نے اجین شپرا ندی کے کنارے واقع ہزار سال قدیم مسجد میں بھگوان شیو اور گنیش کی مورتیوں کے نہ صرف ہونے دعویٰ کیا ہے بلکہ بنارس گیان واپی مسجد کی طرز پر اجین مسجد کا سروے کرنے اور اس کی ویڈیو گرافی کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ مہا منڈلیشور کے مطالبہ کی جہاں بی جے پی نے حمایت کی تو وہیں مسلم دانشوروں کے ساتھ کانگریس نے بی جے پی اور مہا منڈلیشور کے بیان کو انتخابی ایجنڈا کا حصہ قرار دیا ہے۔
آن لائن پورٹل نیوز18اردو کی خبر کے مطابق مہا منڈلیشوراتلیشانند مہاراج کا کہنا ہے کہ شپرا کنارے بنا نیو کی جو مسجد ہے، یہ راجہ بھوج کے زمانے کا قدیم مندر ہے ۔ یہاں پر 2007تک مندر مورتیاں موجود ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ اگر اس کی گیان واپی مسجد کی طرز پر فوٹوگرافی اور ویڈیو گرافی کرائی جاتی ہے تو سچائی سامنے آجائے گی۔
وہیں بی جے پی کے ترجما ن اشیش اگروال کا کہنا ہے کہ سنت سماج کے کسی ذمہ دار نمائندے نے اس طرح کی بات کہی ہے تو ایڈمنسٹریشن کی ذمہ داری ہے کہ ان کے دعویٰ کو دیکھے اور ان کے ذریعہ پیش کئے جانے والے ثبوت کی بنیاد پر جانچ کرکے انہیں جوب دے ۔
وہیں مدھیہ پردیش کانگریس ترجمان آرپی سنگھ کا کہنا ہے کہ مہا منڈلیشور بنا نیو کی مسجد کو راجہ بھوج کے زمانے کا مندر بتا رہے ہیں ۔ ایک ہزار چھبیس کا ریکارڈ ہونا بتا رہے ہیں ، لیکن وہ یہ نہیں بتا رہے ہیں کہ دوہزار سات میں جب انہوں نے وہاں مورتی دیکھی تھی تو وہ 2022تک خاموش کیوں رہے اور اب جبکہ 2022اور23میں بلدیہ، پنچایت اور اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں تو وہ مورتی کی بات کر رہے ہیں ۔ بات بالکل صاف ہے کہ آر ایس ایس کے چھپے ہوئے ایجنڈے پر بی جے پی اور مہا منڈلیشور کام کر رہے ہیں ۔ تاکہ ہندو اور مسلم کے بیچ تنازع کھڑا کیا جا سکے اور جب ہندو اور مسلم کے بیچ تنازع کھڑا ہوتا ہے تو اس کا فائدہ بی جے پی کو ملتا ہے ۔
انہوں نے کہا اسی پالیسی پر بی جے پی اور اس کے ہمنوا گامزن ہیں ۔ جبکہ اسی اجین میں سنہستھ کی زمین پر بی جے پی لیڈران کے قبضے ہیں، بہت سی مندروں پر قبضہ ہیں اور مہا منڈلیشور ان کو خالی کرانے کے لئے آواز بلند نہیں کرتے ہیں ۔ اسی اجین میں ہزاروں مندر ایسے ہیں جہاں پر صاف صفائی تک نہیں ہوتی ہے ان مندروں کی صفائی اور تحفظ کو لے کر بھی کوئی آواز بلند نہیں کی جاتی ہے ، لیکن تنازع کو کھڑا کرکے سرخیوں میں رہنے اور سماج میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
وہیں ممتاز مورخ پروفیسر محمد شکیل کا کہنا ہے کہ سیاست داں اور مہا منڈلیشور کیا کہتے ہیں یہ سیاست کی باتیں سیاست والے لوگ جانیں ۔ بات صرف اتنی ہے کہ اس مسجد کی تعمیر ہزار سال سے زیادہ قدیم ہے اور اس کا دستاویز وقف بورڈ میں موجود ہے ۔ اس مسجد کو بغیر نیو کی مسجد اس لئے کہا جاتا ہے ، کیونکہ اس کی تعمیر جناتوں کے ذریعہ کی گئی تھی ۔ مسجد کے اندر نہ تو کل کوئی مورتی تھی اور نہ ہی آج کوئی مورتی ہے ۔
مہا منڈلیشورنے 2007میں اگر مسجد کے اندر مورتی دیکھی تھی تووہ اب تک خاموش کیوں تھے ۔ اس وقت بھی یہاں پر بی جے پی کی حکومت تھی اور آج بھی ہے ۔ حکومت اور انتظامیہ کو کسی فیصلہ کو کرنے سے قبل قدیم دستاویزات کی جانچ کرلینی چاہئے۔