ایودھیا میں ہندو منتروں، جاپ اور روایتی مذہبی رسوم و رواج کے ساتھ وزیراعظم نریندر مودی نے نو تعمیر شدہ رام مندر کا باضابطہ طور پر افتتاح کر دیا ۔ رام مندر کی تقریب کو پورے ملک میں درجنوں ٹی وی چینلوں کے ذریعے براہ راست نشر کیا گیا جس میں وزیر اعظم مودی نے اسے ملک میں ایک ’نئے عہد کے آغاز‘ سے تعبیر کیا۔
مذہبی رسومات کے بعد انھوں نے وہا ں موجود ہزاروں سادھو سنتوں اور اہم شخصیات سے خطاب کیا۔ ان کی بیشتر تقریر بھگوان رام پر مرکوز تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ پل صدیوں کے طویل انتظار کے بعد آیا ہے۔ اس پل کو کھونا نہیں ہے۔ یہ انڈیا کے نئے عہد کا آغاز ہے۔ ہمیں اس وقت آئندہ ایک ہزار سال کے بھارت کی بنیاد رکھنی ہے۔‘
انھوں نے اپنی طویل تقریر میں یہ بھی کہا کہ ’دیو سے دیش اور رام سے قومی شعور کی تخلیق سے ہی قوم کی تعمیر ہو گی۔‘انھوں کہا کہ ’ملک صدیوں کی غلامی کی ذہنیت کی زنجیر توڑ کر باہر آ گیا ہے۔‘
اس تقریب میں ملک کے اعلی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت بھی شریک تھے۔ وہ سٹیج پر وزیر اعظم کی بغل میں بیٹھے تھے۔
رام مندر بی جے پی کی ہندوتوا سیاست کا محور تھا۔ اس کے ذریعے وزیر اعظم نریندر مودی نے عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ یہ ہندوؤں کی بالادستی کی علامت ہے۔ اس کے ذریعے یہ سیاسی پیغام بھی دیا گیا کہ بی جے ہی ملک میں ہندو مذہب اور ثقافت کی سب سے بڑی علامت ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے چار برس قبل رام مندر کو بابری مسجد کی جگہ تعمیر کرنے کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ اس فیصلے میں حکام کو بابری مسجد کی ایودھیا میں متبادل جگہ تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین دینے کا حکم بھی دیا تھا۔
یہ زمین ایودھیا کے دھننی پور گاؤں میں الاٹ کی گئی ہے۔ مسجد بنانے کی ذمہ داری سرکاری ادارے، سُنی وقف بورڈ، کو دی گئی تھی اور وقف بورڈ نے اس مقصد کے لیے انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ٹرسٹ بھی قائم کیا تھا۔
اس فاؤنڈیشن نے مسجد کے ساتھ ساتھ کینسر ہسپتال اور ایک کلچرل میوزیم بنانے کا ایک نقشہ بھی پیش کیا تھا۔ حال ہی میں اس نے اس کی جگہ مسجد کا ایک نیا نقشہ پیش کیا ہے جس میں مسجد کا نام ’محمد بن عبداللہ ‘ لکھا گیا ہے۔چار برس گزرنے کے بعد ابھی تک اس مسجد کی بنیاد نہیں رکھی جا سکی ہے
پیر کے روز بی جے پی نے رام مندر کا اپنا وعدہ تو پورا کر دیا ہے لیکن یہ تنازع یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق اب یہ بنارس اور متھرا کی مسلم عبادت گاہوں کو بھی اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔
یہ سیکولرزم اور ہندو اکثریتی جمہوریت کی کشمکش ہے۔ دو مہینے بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں رام مندر کو ایک بڑی سیاسی کامیابی کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ اور اب پارلیمانی انتخابات ہی یہ طے کریں گے کہ ’سیکولر انڈیا‘ کا سیاسی مستقبل کیسا ہو گا۔