نئی دہلی: (ایجنسی)
اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات سے عین قبل بی جے پی سے سماج وادی پارٹی میں لیڈروں کی منتقلی کا سلسلہ جاری ہے۔ تین وزراء اور آٹھ ایم ایل ایز کے بعد یہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔ ماہرین موسمیات زمین سونگھ کر اندازہ لگالیتے ہیں کہ ووٹوں کی بارش کہاں ہونے والی ہے ۔ موریہ جی کا اتہاس بھی بتاتا ہے وہ کہیں چین سے نہیں بیٹھتے ۔
سماج وادی پارٹی کے لیے یہ اچھی خبر ہے لیکن اس نے اکھلیش یادو کے لیے کافی پریشانی پیدا کردی ہے۔ سوال یہ ہے کہ سیٹوں کے حساب کتاب میں سماج وادی پارٹی ان لیڈروں کو کہاں فٹ کرے گی؟ بی جے پی سے آنے والے لیڈروں کے لیے کون سے لیڈر کاٹے جائیں گےجو پانچ سال سے سیاسی خشک سالی کے شکار ہیں وہ مزید قربانی دیں گے ؟
وہیں ایک سوال یہ بھی کہ کہیں ایسا نہیں ہو کہ بی جے پی سرکار میں پانچ سال تک ملائی کھانے والے سماجوادی پارٹی میں آکر اسے بی جے پی کی بی ٹیم بنادیں اور اگر کل کسی اور پارٹی کے حق میں ہواچل کی اور اس کو سرکار بنانے کے لیے کچھ سیٹوں کی ضرورت ہوئی تو وہی لوگ اکھلیش کو ٹاٹانہ کہہ دیں،سیاست تو امکانات کا کھیل ہے۔ پھر یہ بھی سوال ہے وہ اپنی پارٹی کے لوگوں کا کہاں تک ٹکٹ کاٹیں گے ۔ اگر اس کے نتیجہ میں ان کے یہاں بغاوت ہوگئی ؟