ممبئی :(پریس ریلیز)
دارالقضاء اللہ کی رحمت ہے، ہندوستانیوں کے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے، دارالقضاء کے ذریعہ کم وقت میں گھریلوتنازعات حل کئے جاتے ہیں، ان خیالات کااظہارقاضی محمدفیاض عالم قاسمی (قاضی شریعت دارلقضاء ناگپاڑہ) نےگزشتہ دنوں میراروڈ تھانے میں آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ کے ماتحت قائم دارالقضاء کے چارسالہ اجلاس عام میں کیا۔انھوں نے دارالقضاء کے تین فائدے بیان کئے۔
(۱) اپنی عزت کی حفاظت(۲)پیسہ کی بچت(۳)وقت کی بچت۔ انھوں نے ان باتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ یہ ایک حقیت ہے کہ ہمارے سماج میں جن لوگوں کا معاملہ کورٹ میں چل رہاہوتاہے،ان کو لوگ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں، ان کے گھر کوئی رشتہ کرنانہیں چاہتاہے۔ایسے گھرانے میں نہ اپنی بیٹی بہن کو دیناچاہتےہیں اورنہ ہی اپنی بہو، بیوی لاناپسند کرتے ہیں۔
دارالقضاء کورٹ کا کس طرح معاون ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے قاضی موصوف نے کہا کہ2018کی رپورٹ کے مطابق ہماری معززعدالتوں میں 33455626 (تین کروڑ چونتیس لاکھ پچپن ہزارچھ سو چھبیس) معاملات زیر التواء تھے، جس میں سالانہ744735 (سات لاکھ چوالیس ہزارسات سوپینتیس)سے زائدکے حساب سے مقدمات زیرالتواء ہورہے ہیں۔ (کورٹ نیوز، جنوری- مارچ 2018ء) ایک رپورٹ کے مطابق اگرزیرالتواء مقدمات پر قابو نہیں پایاگیاتو ان کی تعداد2040تک پندرہ کروڑ تک ہوجائے گی۔ (ٹائمس آف انڈیا 17جنوری 2013)
یہ بھی یادرہے کہ سب آرڈنیٹ کورٹ میں ایک مقدمہ کاتصفیہ کرنے میں اوسطاً چھ سال، ہائی کورٹ میں دس سال، اورسپریم کورٹ میں تیرہ سال لگتے ہیں۔ (انڈیا ٹوڈے، 9مئی2016ء) اسی وجہ سے آندھراپردیش کے چیف جسٹس وی وی راؤکہتے ہیں کہ زیر التواء مقدمات کوحل کرنے میں ہندوستانی عدلیہ کو320سال لگیں گے۔( ٹائمس آف انڈیا6مارچ 2010ء)۔ایسی ناگفتہ بہ صورت حال پرسپریم کورٹ کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نئی دہلی میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹسوں اوروزارء اعلیٰ سے ایک خطاب کے دوران عدالتوں میں زیرالتواء مقدمات اورججوں کی جگہ خالی ہونے پر بات کرتے ہوئے جذباتی طورپر روپڑے، انھوں نے کہاکہ جو مقدمات زیرالتواء ہیں انھیں حل کرنے کے لئے سترہزارججوں کی ضرورت ہے،جب کہ فی الحال تقریباًاکیس ہزارہیں،اس لیےایک جج کوسالانہ چھبیس سو مقدمات حل کرناپڑتاہے، جب کہ امریکہ میں سالانہ 81مقدمات کو 9جج مل کرحل کرتے ہیں۔(لائیومنٹ:12جولائی 2016ء)یہ یقیناًہماری عدالتوں پر بہت بڑابوجھ ہے۔اوراس بوجھ کوالحمدللہ دارالقضاء ہلکاکررہاہے۔انھوں نے مزید کہاکہ دارالقضاء کورٹ کا مقابل یامخالف نہیں ، بلکہ معاون ہے۔
قاضی محمدفیا ض عالم قاسمی نے کہا کہ آج کل وکیلوں کی فیس بھی بہت زیادہ ہے، اس لئے مالی اعتبارسے کمزور طبقہ ان کی فیس اداکرنے سے قاصرہوتاہے، ایسے لوگ دارالقضاءسے اپنے تنازعات کو حل کرنازیادہ پسند کرتے ہیں۔ انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دارالقضاء میں نوے فیصد سے زیادہ معاملات باہمی رضامندی سے حل ہوجاتے ہیں۔ نیز کم سے کم وقت میں یعنی تین چارمہینے میں تنازعات کے تصفیہ کرنے کی کوشش جاتی ہے۔